رمضان لوٹ کا مہینہ مگر نوکر پیشہ خواتین اکثر پیچھے رہ جاتی ہیں
رانی عندلیب
اسلام میں رمضان المبارک کو تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس کو لوٹ کا مہینہ بھی کہتے ہیں اس لئے ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ثواب کمائے، ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عبادات یعنی مکمل تراویح، تہجد، تلاوت اور تینوں عشروں کے ذکر اذکار بھی بخوبی سرانجام دے سکے لیکن نوکر پیشہ خواتین نوکری اور گھر کے کاموں کی وجہ سے اکثر پیچھے رہ جاتی ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ایسی خواتین قابل داد اس لئے ہیں کہ شادی سے پہلے اپنی مرضی سے جاب کرتی ہیں پھر جب شادی ہو جاتی ہے اور بچے بھی تو نوکری اور گھر کو ساتھ چلانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے، لیکن پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارتیں اور گھر اور آفس کے تمام کام کرتی ہیں۔ اس ضمن میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں جاب کرنے والی ثمینہ اور سیما کی مثال دی جا سکتی ہے۔
پشاور کی رہائشی ثمینہ گھر میں سب بہن بھائیوں میں بڑی ہیں، والد کی امدنی چونکہ اچھی نہیں اور باقی تین بہن بھائی بھی پڑھ رہے ہیں اس لیے ثمینہ تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ سکول میں جاب کرتی ہیں اور اس طرح نا صرف اپنی تعلیمی کا بوجھ خود اٹھاتی ہیں بلکہ گھر کے اخراجات میں اپنے والد کا ہاتھ بھی بٹاتی ہیں۔
ثمینہ کے مطابق بہت مشکل ہوتا ہے رمضان کے روزے رکھنا، اوپر سے نوکری اور پھر گھر کے تمام کام کرنا، کیونکہ عام دنوں کی نسبت سحر خصوصاً افطاری میں زیادہ ڈشز بنتی ہیں، بھر سب کا روزہ بھی ہوتا ہے اس لئے افطاری میں سب کے کھانے اور ہر ایک کی پسند کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جس میں زیادہ وقت لگ جاتا ہے، اس کے علاوہ مشروبات بھی دو تین قسم کے تیار کیے جاتے ہیں۔
ثمینہ کی کہانی، انہی زبانی
”ڈیوٹی صبح آٹھ بجے سے ایک بجے تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد گھر آ کر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہوں، شام تک کا وقت امی کے ساتھ افطاری کی تیاری میں گزر جاتا ہے، رمضان کی برکت دیکھ لیں کہ ہر امیر و غریب کے گھر میں ایک سالن نہیں پکتا بلکہ تین چار قسم کے کھانے دسترخوان پر رکھے جاتے ہیں۔ یہ تمام کام کر کے تھکن تو ہوتی ہے لیکن افطاری کے بعد دوبارہ گھر کے کام کاج، سحری میں بھی امی کے ساتھ ہی اٹھنا ہوتا ہے۔ یوں روٹین کی عبادت تو ہو جاتی ہے لیکن زیادہ ذکر اذکار اور تراویح کیلئے وقت ملتا ہے نا ہی ہمت ہوتی ہے، یہ بھی ہے کہ افطاری کے بعد ایک سستی سی چھا جاتی ہے۔
نوکری بھی نہیں چھوڑ سکتی اور نہ گھر کے کام کاج چھوڑ سکتی ہوں، دل خفا ہوتا ہے کہ اکیلی امی یہ سارے کام کریں گی۔”
سیما کیا کہتی ہیں؟
”خاوند کا ہاتھ بٹانے کیلئے جاب کرتی ہوں۔ دو بچے بھی ہیں اس لیے اب ڈیوٹی کرنا انتہائی مشکل ہے، صبح ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اپنے دونوں بچوں کو تازہ ناشتہ دے کر سکول کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے، آج کل کے بچے بھی پرانے وقتوں کی طرح باسی روٹی پر کہاں گزارہ کرتے ہیں، گزر گئے وہ زمانے کہ جو سامنے رکھ دیا اور بس کھا لیا۔ بلکہ اب تو بچوں کے لیے میگی، گرم سالن اور گرم دودھ کا انتظام، صبح دوپہر، کرنا پڑتا ہے۔
اس کے بعد شوہر کو بھی سب کچھ ارینج کر کے دینا، ملازمت پیشہ آدمی ہیں، پھر اپنے سکول کے لیے نکلنا ہوتا ہے، ڈیوٹی سے تھکی ہاری واپس آئی تو بچوں کے لئے تازہ سالن بنا کر ان کو کھلانا ہوتا ہے۔ کام کے بوجھ کی وجہ سے اگر کچھ غلطی ہو جائے، اکثر سالن میں نمک زیادہ یا کم ہو جاتا ہے تو شوہر اور سسر کی باتیں الگ سننا پڑتی ہیں، ایسے جیسے مرد اور بڑے بزرگ ہی روزے سے ہوتے ہیں، یہ نہیں سوچا کبھی کہ یہ خواتین تو نہ صرف روزے رکھتی ہیں بلکہ ڈبل ڈبل کام بھی کرتی ہیں۔
بچے بیمار ہوتے ہیں تو بچوں کی وجہ سے رات کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی۔ پھر سحری کے لئے اٹھنا اس کے بعد ایک گھنٹہ نہیں سوتی کہ ڈیوٹی کے لیے جانا ہوتا ہے، اس دفعہ اب تک ٹھیک طرح سے قرآن پاک کی تلاوت کی نہ ہی کوئی اور نفلی عبادت، نہ ہی گھر کو وقت دے سکتی ہوں جیسا کہ پہلے چھٹیوں کے رمضان میں دیتی تھی۔ پاکستان تو اسلامی ملک ہے، اگر ہر سال رمضان میں پرائیویٹ سکولز اور وہ ادارے جہاں پر خواتین کام کرتی ہیں، ان کو دس یا پندرہ چھٹیاں دی جائیں تو خواتین پر گھر کے کام کا اور نہ بچوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا، اور وہ بھی اسی طرح عبادت کرتی جس طرح عام گھریلو خواتین کرتی ہیں۔”