مہنگائی کا طوفان اور لوگوں کی فضول خرچیاں
نشاء عارف
ہر طرف مہنگائی کا رونا رویا جارہا ہے یہ صرف اب کی بات نہیں شاید میں بچپن سے سنتی آرہی ہوں اپنی دادی سے کہ بہت مہنگائی ہوگئی ہے پھر اپنی والدہ سے کہ کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ تو آسمانوں سے باتیں کرنے لگے ہیں۔
لگتا ہے جب سے دنیا آباد ہوئی ہے اسی دن سے ہر زمانے میں لوگ یہی کہتے ہونگے کہ بہت زیادہ مہنگائی ہوگئ ہے۔
اکثر بزرگوں سے سنتے ہیں کہ پہلے ایک روپے کی کافی قدر ہوتی تھی اور چند روپوں میں پورے گھر کا خرچہ آسانی سے ہوجاتا تھا لیکن یہ نہیں کہتے کہ پرانے زمانے میں آمدنی بھی کافی کم تھی۔
ماہر معاشیات کہتے ہیں کہ جب بھی کسی ملک کی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہوجائے تو یہ بھی مہنگائی کی ایک اہم وجہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر روز چیزوں کے نرخ آسمان سے مقرر ہوکر آتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم انسانوں کو پریشان نہیں ہونا چاہئے جو ہوتا ہے ویسے بھی ہوگا۔
مہنگائی کا رونا رونے کی بجائے اسکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے یہ نہیں کہ ہمت ہی ہار جائے۔ کچھ دن پہلے بھی ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں ایک آدمی اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ دکھائی دے رہا ہے اور ساتھ میں لکھا تھا کہ یہ والد غربت کی وجہ سے اپنا بچہ فروخت کرنا چاہتا ہے اب یہ معلوم نہیں کہ یہ پوسٹ فیک تھا یا سچ لیکن بہت افسوس ہوا کیونکہ اس تصویر میں وہ آدمی جسمانی طور پر صحت مند اور جوان تھا محنت مزدوری کر سکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دو وقت روٹی دینے کا وعدہ کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب بھی ایک انسان ہمت کرتا ہے اللہ تعالیٰ ضرور برکت ڈالتا ہے۔ خود محنت نہیں کرسکتا لکین بچے کو فروخت کر رہا تھا۔
میرے دادا کی بہن اللہ بخشے اکثر کہتی تھی کہ لوگ بہت نا شکرے ہیں حال میں رہتے ہوئے ماضی کو اچھا کہتے ہیں انکے زمانے میں بہت غربت ہوا کرتی تھی جو کھیتوں میں بویا جاتا وہی پورا سیزن کھایا جاتا۔ مرغی تو اس دن پکائی جاتی جس دن گھر میں مہمان آتے وہ بھی ایک بہت بڑی دیگچی میں شوربہ والا سالن بنتا مہمان بھی وہی کھاتے اور گھر والے بھی وہی کھاتے۔
انکے کہنے کے مطابق اب تو نا صرف مرغی بلکہ انواع اقسام کے کھانے پینے کی چیزیں گھر میں اپنے لیے روزانہ بنائی جاتی ہے۔ مہنگائی ہے لیکن دولت کی بھی کثرت ہوگئی ہے۔
دادی اماں کی یہ بات آج بھی یاد ہے کہتی تھی کہ انکے زمانے میں ہر کسی کے گھر فریج ،ٹی وی اور اعلی قسم کا سامان نہیں ہوتا تھا لیکن اب تو امیر اور غریب کے گھر رہن سہن میں اتنا کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
والدہ بھی کہا کرتی تھی کہ انکے دور میں نئے کپڑے صرف چھوٹی عید پر ہی بنوائے جاتے تھے جسکو دوبارہ بڑی عید پر بھی پہنا جاتا تھا۔
آج کل تو ہر تقریب کے لیے نئے کپڑے بنوائے جاتے ہیں ہر گھر میں ضرورت کی ہر چیز موجود ہوتی ہے تو پھر کیسے مہنگائی ہے یا لوگ فریاد کرتے نہیں تھکتے۔
اگر انسان محنت کریں تو کافی ترقی کرسکتا ہے نا صرف اپنے حالات بلکہ ملکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہر دور میں حکومت نے بھی لوگوں پر ٹیکس اور مہنگائی کا بوجھ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن خود اور اللہ پر یقین کرنا بھی بہت ضروری ہے۔