یومِ خواتین: یہ دن پہلی دفعہ کہاں اور کیوں منایا گیا؟
حنا گل
8 مارچ کو یعنی آج کے دن خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن پہلی دفعہ کہاں اور کیوں منایا گیا، یہ جاننے کے لئے پہلے تاریخ کے جھروکوں میں ذرہ جھانک کر دیکھتے ہیں۔
یہ 1909 کی بات ہے، سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کی نمائندگی کرنے والی تقریباً 15,000 خواتین پر مشتمل ایک گروپ نے نیویارک شہر میں مارچ کیا جو کام کے بہتر اوقات، تنخواہ اور ووٹ کا حق مانگ رہی تھیں۔
ایک سال بعد، 1910 میں، اس گروپ نے پہلی مرتبہ خواتین کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی۔
بین الاقوامی سطح پر باضابطہ شناخت 1910 میں شروع ہوئی جب کلارا زیٹکن نام کی ایک خاتون نے ڈنمارک میں کام کرنے والی خواتین کی بین الاقوامی کانفرنس میں ایک خاص دن کو خواتین ڈے کے طور پر تسلیم کرنے کا مشورہ دیا۔ 1911 میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ نے پہلی مرتبہ خواتین کا عالمی دن منایا جبکہ 1917 کے روسی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ 8 مارچ کو یومِ خواتین قرار دے کر اس دن عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔
8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کا مقصد صنفی بنیاد پر تشدد، جنسی ہراسانی، عصمت دری اور کمسن بچیوں کی ہلاکت کو ختم کرنا ہے۔
پاکستان میں مارچ کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
عورت آزادی مارچ کا آغاز 2018 میں پاکستان میں وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے اراکین نے کیا تھا۔ 2018 میں عورت مارچ جس تھیم کے ساتھ شروع ہوا وہ مساوات تھا یعنی مردوں اور عورتوں کو ایک جیسی تنخواہ ملنی چاہیے۔
2019 میں عورت مارچ کا موضوع بھائی چارہ اور یکجہتی تھا، 2020 مارچ کے موضوعات خودمختاری، تشدد، جنسی اور معاشی استحصال تھے جبکہ 2021 میں عورت مارچ کا سلوگن میرا جسم میری مرضی تھا جس پر اندرون ملک کافی لے دے ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے۔
جب سے عورت مارچ اس موضوع کے ساتھ شروع ہوا ہے تو بہت سے لوگوں نے اس کو بہت برا بھلا کہا اور اس نعرے کو ایک غلط رنگ دیا۔
وقت کے تقاضوں کے مطابق جس طرح ہر ایک چیز میں تبدیلی آتی ہے تو اس طرح اس مارچ کے موضوعات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ میرے خیال میں بالکل بھی غلط نہیں ہے کیونکہ میں ایک عورت ہوں اور میری بھی خواہشات ہیں، میرے بھی ارمان ہیں اور میں خود اپنی مرضی بھی رکھتی ہوں، میں جہاں جانا چاہوں میں جا سکتی ہوں کیونکہ یہ حق مجھے قانون نے دیا ہے۔
اللہ نے مجھے شعور دیا ہے اور میں اچھے اور برے میں تمیز کر سکتی ہوں۔ جب اتنا سب کچھ میرا ہے اور میں کر سکتی ہوں تو پھر میرے خیال میں میرا جسم میری مرضی کے نعرے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
میرا جسم میری مرضی کا نعرہ سنتے ہی ہمارے ذہن میں غلط خیال آتے ہیں، پتہ نہیں کیوں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کا جسم ہے تو وہ اس کا غلط استعمال کرتی ہو گی جو کہ اک غلط خیال یا تصور ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسے مرد بھی ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس کے اوپر ظلم کرتے ہیں، کیا وہ یہ ٹھیک کرتے ہیں؟
ہمارے معاشرے میں مرد عورت کو اپنی پراپرٹی سمجھتے ہیں تو تشدد بھی کرتے ہیں، من مرضی بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ ناکامی یا کسی اور ناراضگی پر ان پر آسانی سے تیزاب بھی پھینکتے ہیں۔
کچھ ظالم مرد عورت کو کچھ برے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور اگر عورت مزاحمت کرتی ہے اور میرا جسم میری مرضی کے نعرے پر پورا اترنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو بداخلاق سمجھا جاتا ہے، اسے مارا پیٹا جاتا ہے اور طلاق کی دھمکی دے کر اسے چپ کروایا جاتا ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کی مسلسل کم رپورٹنگ کے باوجود 2020 میں پاکستان کے 25 اضلاع سے رپورٹ ہونے والے کیس بڑھ کر 2297 ہو گئے۔
تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے 2018 میں کیے گئے سروے کے مطابق، پاکستان رجعت پسند ثقافتی روایات، جنسی تشدد، گھریلو غلامی، جائیداد اور وراثت کے حقوق، تعلیم تک رسائی اور غذائیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی وجہ سے خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا خطرناک ملک رہا۔ پاکستان میں زچگی کے دوران شرح اموات دنیا میں بدترین ہے اور خواتین کی متوقع عمر مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔
یاد رہے کہ عورت ایک حساس طبیعت کی مالک ہے، اس کے بھی اپنے ارمان اور خواہشات ہوتی ہیں۔ عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے کپڑے پہنے، اپنی مرضی سے شادی کرے اور اپنی پسندیدہ جگہوں کی سیر بھی کرے۔ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ اتنا بھی غلط نہیں، ذرہ سوچیے!
ہم سب کو چاہیے کہ عورت مارچ کو نا صرف سپورٹ کریں بلکہ عورتوں کو ان کے جائز حقوق دے کر ایک انسان اور ایک مسلمان ہونے کا عملی ثبوت بھی دیں۔