صحت

پاکستان: سالانہ دوران زچگی 11 ہزار مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں

محراب شاہ آفریدی

خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کر کے خواتین کی صحت میں بہتری کے ساتھ ساتھ آبادی اور وسائل میں توازن بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔

پاپولیشن کونسل آف پاکستان نے ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی، کم عمری کی شادی، صحت اور محفوظ زچگی کی سہولیات کے فقدان، غذائی قلت اور دوران زچگی سالانہ شراح اموات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خواتین اور نوجوانوں کی تولیدی صحت کی بہتری کے لئے موثر قانون سازی اور قابل عمل حکمت عملی کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کو یہاں پاپولیشن کونسل اور یو این ایف پی اے کے اشتراک سے یوم خواتین کے تناظر میں منعقدہ نیشنل میڈیا کولیشن میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں چاروں صوبوں کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے شرکت کی۔

میٹنگ کے شرکاء کو بتایا گیا کہ پاکستان میں نوے لاکھ بچیوں کو تعلیم کے بنیادی حق تک رسائی حاصل نہیں، سالانہ دوران زچگی گیارہ ہزار مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور روزانہ کا یہ تناسب 30 خواتین ہیں، 17 لاکھ بچیوں کی 18 سال سے کم عمر میں ہی شادی کرا دی جاتی ہے۔ ملک بھر میں ساٹھ لاکھ سے زائد جوڑے فیملی پلاننگ کرنا چاہتے ہیں تاہم انہیں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات دستیاب نہیں۔ ملک میں 80 لاکھ خواتین تشدد کا جبکہ 45 فیصد خوراک کی کمی کا شکار ہیں، 74 فیصد خواتین بامعاوضہ ملازمت نہیں کرتیں، ملک میں 95 فیصد مردوں کے مقابلے میں 25 فیصد خواتین برسرروزگار ہیں جبکہ صرف دس فیصد خواتین اپنی صحت سے متعلق خود فیصلہ کر سکتی ہیں۔ اسی طرح 37 فیصد شادی شدہ خواتین کی صحت سے متعلق فیصلے ان کے شوہر کرتے ہیں۔

میٹنگ کے آغاز میں پاپولیشن کونسل سینئر ڈائریکٹر پروگرامز ڈاکٹر علی میر اور پروجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں آبادی کا غیرمعمولی اضافہ تشویش کا باعث ہے، وسائل سکڑ رہے ہیں جبکہ مسائل کا حجم بڑھ رہا ہے، رواں برس عالمی یوم خواتین کا تھیم سماجی تعصبات کا خاتمہ ہے جو کہ خواتین کی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خواتین کو صحت و روزگار سمیت جملہ بنیادی سہولیات فراہم کریں اور انہیں سیاسی و سماجی شعبوں میں فیصلہ سازی کا اختیار دیں۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ماہرِ عمرانیات ڈاکٹر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ پاکستان ایسے عالمی معاہدات کا دستخط کنندہ ہے جس کے تحت کم عمری کی شادی اور خواتین کے حقوق کا تحفظ لازم ہے، اس کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں کی قانون ساز اسمبلیوں نے ترقی کے پائیدار اہداف پر عمل درآمد سے متعلق قانون سازی کی ہوئی ہے، اس کے علاوہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 34، 14 اور 9 کے تحت خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یو این ایف پی اے کے پروگرام اسپیشلسٹ ڈاکٹر جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان میں دوران زچگی شرح اموات پورے ریجن سے زیادہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے ہمیں معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ہو گا اور فیملی پلاننگ کی حکمت عملی میں نجی شعبے کو حصہ دار بنا کر سماجی پروگرامز کو وسعت دینا ہو گی۔

میٹنگ میں ملک بھر سے شریک میڈیا کے نمائندوں نے خواتین اور نوجوانوں کی تولیدی صحت اور جملہ حقوق کے تحفظ کیلئے مل کر کام کرنے کے اس عزم کا اعادہ کرتے ہوئے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔

پروگرام کے اختتام پر پاپولیشن کونسل کی منیجر ایڈوکیسی ہما اقبال نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بہبود آبادی سے متعلق جاری اقدامات کو قومی اور علاقائی میڈیا میں تسلسل کے ساتھ اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button