لتاجی کی پروقار آخری رسومات، زرسانگہ کا پھٹا پرانا خیمہ
خالدہ نیاز
ایک پیار کا نغمہ ہے موجوں کی روانی ہے زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے، زندگی بس کہانی ہی تو ہے جس کا اختتام موت ہے لیکن کچھ لوگ مر کر بھی نہیں مرتے۔ یہ گانا شاید بہت ہی کم لوگ ہوں گے جنہوں نے سنا نہ ہو اور یہ لازوال گیت گانے والی ہستی لتا منگیشکر گزشتہ روز اس دارفانی سے کوچ کر گئی ہیں لیکن ان کی سریلی آواز میں گائے گئے گیت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
کچھ لوگ اگرچہ ہمیں چھوڑ کے چلے جاتے ہیں تاہم وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں، کچھ ایسا ہی لتا منگیشکر کے ساتھ بھی ہے اگرچہ وہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں تاہم چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور اگرچہ ان کو کبھی ہم دیکھ نہ پائیں گے لیکن ان کی آواز سے ان کی موجودگی کو ضرور محسوس کریں گے۔
اکثر جب میں صبح دفتر آتی ہوں تو میں گاڑی میں لتا میم کی غزلیں اور گانے سنتی ہوں، ان کی آواز اتنی مدھر ہے کہ کوئی ایک بار سن لے تو پھر ان کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔ کل جب لتا میم کے حوالے سے خبر آئی کہ انہوں نے اس دارفانی سے کوچ کر لیا ہے تو دل بہت اداس ہوا کہ ایک عظیم ہستی ہمیں چھوڑ کے چلی گئی لیکن حقیقت تو بس یہی ہے کہ موت سب کو آنی ہے کسی کو پہلے کسی کو بعد میں۔
لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929 کو وسطی ہندوستان کے شہر اندور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پنڈت دینا ناتھ منگیشکر بھی گلوکار تھے۔ والد کے پانچ بچوں میں سب سے بڑی تھیں۔ بعد میں لتا کے چھوٹے بہن بھائیوں نے بھی ان کی پیروی کی اور موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا۔ لتا منگیشکر کا فلمی میوزک کریئر نصف صدی سے زیادہ پر محیط تھا جس میں انہوں نے 36 ہندوستانی زبانوں میں 30 ہزار سے زیادہ گانے گائے۔
خالدہ نیاز کے دیگر بلاگز
کیا مفت تعلیم کیلئے وزیرستان کی ہر لڑکی کو عاصمہ حافظ بننا پڑے گا؟
کسی نے سوچا بھی کشمیری ماں، کشمیری بہن اور کشمیری بیٹی پے کیا گزرتی ہو گی؟
بچپن میں ہی والد کی وفات کے بعد لتا کو فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنا پڑ رہا تھا لیکن انہیں میک اپ، ایکٹنگ یہ سب کچھ پسند نہیں تھا، ان کے سر پر تو بس گلوکارہ بننے کا جنون طاری تھا۔ لتا کی عمر بمشکل 19 سال ہو گی جب ان کی زندگی میں موسیقار استاد غلام حیدر آئے جنہوں نے لتا کی آواز سنی تو انہیں لے کر ہدایت کاروں کے پاس گئے، ان کی آواز ناپسند کر دی گئی لیکن غلام حیدر اپنی بات پر اڑے رہے اور فلم مجبور میں منور سلطانہ کے لیے لتا سے پلے بیک کروایا۔ لتا بتاتی ہیں کہ غلام حیدر نے ان سے کہا تھا کہ ایک دن تم بہت بڑی فنکارہ بنو گی اور جو لوگ تمہیں مسترد کر رہے ہیں وہی تمھارے پیچھے بھاگیں گے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ غلام حیدر اور نور جہاں دونوں تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے گئے لیکن لتا کے لیے ان کی بات سچ ثابت ہوئی۔
آج ہر کوئی ان کے سٹیٹس لگا رہا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کر رہا ہے، ان کی آخری رسومات بھی سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کر دی گئیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں فن سے وابستہ افراد کو کتنی عزت دی جاتی ہے، ان کو سرکار کی جانب سے بھی عزت دی جاتی ہے اور عوام تو انہیں بھگوان کا اوتار قرار دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اگر میں اپنے ملک کی جانب دیکھوں تو یہاں فنکاروں اور ہنرمند افراد کو عزت دینا تو دور کی بات ان کی حوصلہ افزائی تک نہیں کی جاتی۔
اگر دیکھا جائے تو ہم ہر چیز میں ہندوستان سے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ ہمیں ویسے کرکٹرز چاہئیں، ہندوستان میں تو ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا ہے لیکن ہم نے فن کے شعبے میں انڈیا سے اپنا موازنہ نہیں کیا، نجانے ایسا کیوں ہے؟ ہمارے ہاں بھی ایک سے بڑھ کر ایک فنکار اور گلوکار موجود ہیں لیکن ہم ان کی عزت ہی نہیں کر پاتے، زرسانگہ ہماری پشتو زبان کی معروف گلوکارہ ہیں، جو کسی تعارف کی محتاج نہیں، جنہوں نے کئی لازوال گیت گائے ہیں، جو بہت عزت اور احترام کی مستحق ہیں لیکن ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا، ہم نے مزاح کے بے تاج بادشاہ عمر شریف کے ساتھ کیا کیا؟ اور کس کس کا نام لوں جنہوں نے اس ملک کو پہچان دی لیکن ہم ان کو کچھ اور تو ایک طرف وہ عزت تک نہ دے سکے جس کے وہ حقدار تھے یا ہیں۔
زندہ قومیں تو اپنے فنکاروں کو زندگی میں وہ مقام دیتی ہیں جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں لیکن ہم ان کو نہ تو زندگی میں عزت دے پاتے ہیں اور نہ ہی مرنے کے بعد، کتنے بے حس ہو چکے ہیں ہم! ہم تو عزت دینے کی بجائے فن سے وابستہ افراد سے دل ہی دل میں نفرت کرتے ہیں بلکہ کچھ کو تو ہم مار بھی چکے ہیں، میں یہاں غزالہ جاوید اور ایمن اداس کا ذکر ضرور کروں گی کہ ان کو اسی فن کی وجہ سے ہم نے اپنے ہاتھوں سے مار دیا اور ان کے قاتلوں کو شاید ہم پکڑنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ہمارے لیے تو ان لوگوں کی جانوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی لیکن بدقسمتی سے ہمارے دونوں ملکوں کے بیچ جاری تناؤ کی وجہ سے اس پار اور اس پار کے فنکاروں پر بھی دونوں ملکوں کے دروازے بند ہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان میں بے شمار چاہنے والے موجود ہیں، کچھ ایسا ہی حال یہاں بھی ہے، یہاں بھی اس پار کے فنکاروں کے چاہنے والے تو ہیں لیکن سکرین کے علاوہ ان کو کبھی دیکھ نہیں پائے، لتا میم کے بھی یہاں کروڑوں چاہنے والے ہیں لیکن وہ کبھی بھی پاکستان نہیں آ سکیں حالانکہ ان کی بھی بہت دلی خواہش تھی کہ وہ یہاں آ کر اپنے چاہنے والوں سے ملیں۔
آخر میں بس اتنا کہوں گی کہ فنکار اور گلوکار چاہے دنیا کے جس کونے میں بھی ہو، ان سے پیار کیجیے، ان کو عزت دیجیے جس کے وہ حقدار ہیں کیونکہ محبت بانٹنے والے تو یہی لوگ ہیں۔