بلاگزسیاست

اجمل خٹک کا باجوڑ اور اہلیان باجوڑ کے ساتھ کیا تعلق تھا؟

محمد بلال یاسر

آج ایک ممتاز دانشور، سیاستدان، صحافی، ادیب اور شاعر اجمل خٹک کی بارہویں برسی منائی جا رہی ہے۔ اجمل خٹک کی عظمت کیلئے یہ کافی ہے کہ انہوں نے 12 سال کی عمر میں اپنی شاعری کے سفر کا آغاز کیا۔ اجمل خٹک کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے ورثے میں 17 سے زائد قلمی نسخے چھوڑے ہیں۔ اجمل خٹک کی عظمت کا ثبوت ان کی سادہ طرز زندگی بھی ہے کہ وہ ایک بار رکن قومی اسمبلی، ایک بار ایوان بالا یعنی سینیٹ کے ممبر اور دو بار عوامی نیشنل پارٹی کے صدر رہے، اس کے علاوہ افغانستان کے مختلف بادشاہوں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات بھی تھے لیکن اس کے باوجود جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کا کل اثاثہ وہی کچا مکان تھا جو انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملا تھا۔

1973 میں لیاقت باغ کا واقعہ پیش آیا جس میں اس وقت کے نیشنل عوامی پارٹی کے بہت سارے کارکنان زخمی ہوئے تھے، اس موقع پر پارٹی کے صدر ولی خان کے ہمراہ اجمل خٹک بھی موجود تھے۔ یہ جلسہ حکومت مخالف تحریک کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد حکومت نے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تو اجمل خٹک کو اندازہ ہوا کہ ان کا اب یہاں مزید ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر افغانستان چلے جائیں مگر حکومتی حصار سے نکلنا اور افغانستان تک باحفاظت پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔ اس موقع پر باچا خان کے پیروکار اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء تور لالے کاکا نے، جن کا اصل نام غلام رسول خان اور تعلق باجوڑ کے غلجی قوم سے تھا، یہ ذمہ داری اپنے سر لی اور اجمل خٹک کو ساتھ لے کر باجوڑ کی طرف رخت سفر باندھا۔

تور لالے کاکا کی رہنمائی میں یہ مختصر قافلہ جس میں اجمل خٹک کے علاوہ چند دیگر افراد بھی تھے چکدرہ، ملاکنڈ سے ہوتا ہوا باجوڑ جار میں قیام پذیر ہوا۔ جار میں تور لالے کاکا کے بھائی ظفر خان اس وقت کے تحصیلدار تھے۔ اجمل خٹک نے چند دن جار میں بھی گزارے مگر انہیں محسوس ہوا کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں لہذا وہ جار سے ہوتے ہوئے متہ شاہ سالارزئی تشریف لائے۔ متہ شاہ میں ملک سرور خان المعروف بہ متہ شاہ ملک کے مہمان بنے۔

متہ شاہ ملک ایک پختون قوم پرست اور ہمدرد انسان تھے۔ انہوں نے اجمل خٹک کو بے پناہ عزت و احترام دیا اور جب تک متہ شاہ میں مقیم رہے ان کی ہر طرح سے خدمت کی۔ بعد ازاں متہ شاہ ملک نے اس قافلے کے ساتھ ”بدرگہ” ( پشتون روایات میں بدرگہ اس کو کہتے ہیں کہ مہمان کو محفوظ مقام تک پہنچا کر چھوڑ آنا) کیا۔ ملک سرور خان کے بیٹے ملک عبد الغنی مرحوم کا کہنا تھا کہ وہ اس بدرگہ قافلے میں شامل تھے۔ یہ قافلے افغان صوبے کنڑ سے سالارزئی کی تجارتی راہداری لیٹی پاس کے ذریعے کنڑ چغسرائے پہنچا، وہاں سے ہوتا ہوا جلال آباد اور پھر کابل پہنچا۔

کابل پہنچ کر انہوں نے باجوڑ کے قومی مشران سے اپنے تعلق کو مزید مضبوط کیا۔ باجوڑ سے ان کے ساتھ تور لالے کاکا گئے اور وہاں ان کے ساتھ مقیم رہے۔ اجمل خٹک نے اس تعلق کو برقرار رکھا اور جب بھی کابل میں کوئی قومی، اولسی یا ”لویہ” (گرینڈ) جرگہ ہوتا تھا اس میں خصوصی طور پر باجوڑ کے مشران کو مدعو کرتے، اور یہ روابط آخر تک برقرار رکھے۔ باجوڑ کے اس وقت کے قومی مشران تور لالے کاکا، ملک فوجون (گبرے ماموند)، ملک جمادار (چارمنگ)، محمد شعیب جان (چارمنگ) ملک عطاء اللہ خان لالا خاص کر سالارزئی کے ملک منداعظیم خان عرف سیلاب ملک کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ سیلاب ملک کا شمار ان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ جو شخص بھی باجوڑ سے اجمل خٹک سے ملنے جاتا ان سے سیلاب کے بارے میں ضرور پوچھتے تھے۔ ملک سیلاب کی وفات کے بعد اجمل خٹک ان کے جنازے میں شرکت کیلئے بذات خود باجوڑ تشریف لائے۔ یہاں مختلف مقامات پر قومی و علاقائی مشران سے ملاقاتیں کیں۔

جب اجمل خٹک بے نظیر دور حکومت میں جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئے تو عوامی نیشنل پارٹی کے صدر بنے۔ اپنے دور صدارت میں بھی انہوں نے باجوڑ اور قبائلی عوام سے اپنے خصوصی تعلق کو نہ چھوڑا اور 1996 میں اپنی صدارت میں پشاور میں قبائل کو درپیش مسائل و مشکلات اور ایف سی آر کے خلاف ایک قومی جرگہ کا انعقاد کیا جس میں باجوڑ سے کثیر تعداد میں پارٹی قائدین سمیت قومی مشران نے شرکت کی۔ باجوڑ سے میاں شاہ جہان شہید اور عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما شیخ جہانزادہ نے خطاب کیا اور قبائل کا دکھ درد ان کے سامنے رکھ دیا۔

باجوڑ کی ایک اور نامور شخصیت اور عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صدر ملک عطاء اللہ خان نے بتایا کہ جب اجمل خٹک کابل آئے تو وہ خوشحال خان لیسہ (جامعہ) میں زیر تعلیم تھے۔ ان کے ہاسٹل کے قریب ہی اجمل خٹک نے رہائش اختیار کی تو قبائلی طلبہ اور بالخصوص باجوڑ کے زیر تعلیم طلبہ ان کے مزید قریب ہو گئے ۔ ملک عطاء اللہ خان نے کہا میرے اور اجمل خٹک کے تعلقات اتنے پختہ ہو گئے کہ جب ان کے اور تور لالے کاکا کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو درمیان میں ثالث میں بنا اور ان کی صلح کروائی۔

الغرض اجمل خٹک کی زندگی ایک حرکت و جہدوجہد سے بھرپور زندگی تھی، قبائلی عوام بالخصوص باجوڑ کے عوام نے ہمیشہ ان کا خیر مقدم کیا اور ان کا ہر موقع پر ساتھ دیا جبکہ اجمل خٹک بھی ہمیشہ قبائلی اور باجوڑ کے عوام سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button