کیا اسلامی تعلیمات خواتین کو بااختیار اور باہنر بنانے سے روکتی ہیں؟
مصباح الدین اتمانی
انجیلنا جولی کا ایک ٹویٹ نظر سے گزرا جس میں لکھا گیا تھا "باورچی خانے کی بیوی نہ بنیں جو بقا کے لیے اپنے شوہر کی جیب پر منحصر ہو، ایسی عورت بنیں جو اپنے مرد کی مالی مدد کرے۔”
یہ پڑھ کر میرے ذہن میں میرے معاشرے کے خدوخال دوڑنے لگے کہ یہاں خواتین معاشی طور پر کتنی خودمختار ہیں؟ ذہن میں سوالات ابھرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، برسرروزگار خواتین کو عزت کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھا جاتا؟ خواتین کو بااختیار اور باہنر بنانا مرد اپنے لئے خطرہ کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا اسلامی تعلیمات خواتین کو بااختیار اور باہنر بنانے سے روکتی ہیں؟
ایک طرف یہ سوالات تھے تو دوسری طرف معاشرے میں موجود یہ سوچ کہ خواتین کو کسی بھی صورت میں کام کرنے کا کوئی حق نہیں، میں نے ردعمل کی پرواہ کیے بغیر انجیلنا جولی کی پوسٹ کا سکرین شاٹ سوشل میڈیا پر صرف اس بنیاد پر شیئر کیا کہ میں نے بہت سی خواتین اور ان کے بچوں کو روزگار اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے، کئی ایسی بیوائیں ہیں جو یا تو یتیم بچوں کے ہمراہ بھوکی پیاسی سو جاتی ہیں یا وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، میں نے اس معاشرے میں ایسی خواتین کو بھی دیکھا ہے جن کے گھر میں کمانے والے مرد کسی حادثہ کا شکار ہو چکے ہیں اور اب وہ دوسرے لوگوں پر انحصار کرتی ہیں، یہ انحصار ان کے وقار کو کتنا مجروح کر دیتا ہے، کب تک یہ خواتین غیر مرد کے رحم و کرم پر زندگی گزاریں گی؟
میں نے اس معاشرے میں ایسے مرد بھی دیکھے ہیں جو کوشش کے باوجود بمشکل دو وقت کی روٹی کماتے ہیں، میں نے اس معاشرے میں ایسے بھی مرد دیکھے ہیں جو بے روزگاری اور بھوک و افلاس سے تنگ آ کر بیوی اور بچوں سمیت یا تو دریا میں چھلانگ لگا لیتے ہیں یا پھر زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتے ہیں، میں نے اس معاشرے میں ایسے بھی کئی خاندان دیکھے ہیں جو غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو تو نہ صحیح لباس دلا سکتے ہیں، اور نہ ہی ان کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور میں نے اس معاشرے میں ایسی کئی حوا کی بیٹیاں بھی دیکھی ہیں جن کی مجبوری سے معاشرے کے غیرت مند مرد غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایسی بھی دیکھی ہیں جو ہنر اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہو کر جسم فروشی کا دھندہ کر بیٹھتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے کسب معاش کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی ہے، شادی تک نان و نفقہ کے ذمہ دار والد تو شادی کے بعد یہ ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی ہے، لیکن اسلام نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اگر عورت کو معاشی تنگی کا سامنا ہو اور شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہو یا عورت بیوہ ہو اور گھر میں رہ کر اس کے لیے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہو گی۔
انجیلنا جولی کا سکرین شاٹ پوسٹ کرتے ہی ایک بھائی نے کمنٹ کیا، "یہ حوالہ انگریزوں کیلئے تو درست ہے لیکن اگر یہاں عورت ایسے سوچے تو چھ مہینے مرد کراچی پنڈی میں مزدوری کرے گا جبکہ چھ مہینے عورت راولپنڈی، کراچی میں ٹرک لوڈنگ، ہینڈ فری اورجوتے فروخت کرے گی۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟”
بھائی کا کمنٹ پڑھ کر میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس کی نظر میں کام کرنا صرف ہینڈز فری فروخت کرنا اور بڑے بڑے گاڑیوں کو لوڈ کرنا ہے، خواتین کے حلال روزگار کو ان کا حق تسلیم کرنے کی بجائے انگریزوں کا حوالہ دے کر اس نے اپنا کارڈ استعمال کیا تھا لیکن وہ اس حقیقت سے دور تھا کہ انگریز مرد و خواتین گھر بیٹھے آن لائن کاروبار کرتے ہیں، پیسے کماتے ہیں، ترقی کرتے ہیں اور ہم بحیثیت قوم پھر ان سے حرام سود پر حلال قرض مانگتے ہیں۔
ایک اور بھائی نے کمنٹ کیا کہ "جس طرح مرد و عورت کے جسم میں فرق ہے اسی طرح اسلام نے کام بھی فرق سے بتائے ہیں، گھر کی ملکہ کو چاہیے کہ اپنی ملکیت کی دیکھ بھال کرے، شوہر بچارے دن رات ایک کر کے عورت کی ملکیت کو زیب دینے کیلئے کوشاں ہیں۔”
اب اس کو میں کیا بتاتا، جن کو کام کی ضرورت نہیں وہ کام کیوں کریں گی؟ ان کی نظر میں ہر خاتون شادی شدہ ہو گی، شوہر نہ کبھی مر سکتا ہے اور نہ ہی بیمار ہو سکتا ہے، اسلامی تعلیمات کی پیروی اور معاشرے کی اصلاح و خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ ہم خواتین کے مسائل اور اس کے ہر پہلو پر سوچیں۔
معاشرے کی ہر خاتون اس قابل ہو کہ مشکل وقت میں بھیک مانگنے کی بجائے وہ رزق حلال کما سکے، ہر خاتون اس قابل ہو کہ اگر وہ بیوہ بن جائے یا اس کو طلاق ہو جائے تو وہ اپنی ضروریات پوری کر سکے اور اپنے بچوں کو پال سکے، ہر خاتون اس قابل ہو کہ بوقت ضرورت اپنے شوہر کا ہاتھ بٹا سکے۔ اس کی اجازت اسلامی تعلیمات بھی دیتی ہیں اور ہماری معاشرتی اقدار بھی!