لائف سٹائل

میں نے پہلی بار لاہور میں کیا دیکھا؟

محمد بلال یاسر

میری پیدائش افغانستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقہ ضلع باجوڑ میں ہوئی مگر تعلیم کے سلسلے میں بچپن اور بعد ازاں جوانی میں قدم رکھتے ہوئے بھی کراچی میرا مسکن رہا۔ کراچی میں لاہوری دوست کہتے تھے،
"جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں” (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا)۔ جواباً کراچی والے کہہ دیا کرتے تھے کہ جتنا بڑا لاہور ہے اتنا بڑا تو ہمارا گلستان جوہر ہے۔ بات ہضم نہیں ہوتی تھی۔ اور اسی وقت سے لاہور جانے اور لاہور دیکھنے کی آرزو تھی۔

مگر زندگی جس تیزرفتاری سے بھاگ رہی ہے، گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کی دوڑ کے علاوہ صحت کے مسائل کے درمیان اب کسی دفتری ورکشاپ یا ضروری دورہ کے علاوہ سیر و تفریح کے لئے نکلنا تقریباً ختم ہی ہو چکا ہے۔ بہت سی جگہوں کو دیکھنے کا ارمان دل میں موجود مگر بڑھتی مصروفیات کے باعث لگتا یہی ہے کہ یہ ارمان ارمان ہی رہیں گے ۔

لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے، اور شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا، یا لاہوریوں کے بقول لاہور لاہور ہے۔ ان سب باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ لاہور شہر واقعی دیکھنے کے لائق ہے۔ لاہور کے تاریخی اور سیاحتی مقامات کے ساتھ ساتھ وہاں کے کھانے اپنے آپ میں لاجواب ہیں اور جب آپ ایک مصروف ترین زندگی سے فرصت کے چند روز نکال کر گھومنے جائیں تو لاہور کی سیر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

سفر کا آغاز:۔

ایک اچانک طے پانے والے معاہدے کے تحت 25جنوری کو ہم محترم نورخان انصاری (ڈائریکٹر ماموند پبلک سکول سیوئی ماموند باجوڑ) کی قیادت میں 14رکنی قافلے کی صورت میں عنایت کلے سے یوٹانگ بس میں سوار ہوئے۔ طویل عرصے بعد بس کی سواری میسر آئی تھی مگر یہ بس ہمارے زمانہ طالب علمی (2003,4,5) کی بسوں سے قدرے مختلف، کشادہ سیٹیں آرام دہ، اور پرسکون سفر کی حامل تھی۔ پورا دن سفر کے بعد ہم رات گئے لاہور منصورہ پہنچے۔ یہ ہمارا اولین ٹھکانہ تھا۔ ہمارے ساتھ آنے والے اساتذہ کرام نے یہاں منعقدہ اساتذہ کی تربیت کیلئے تعمیرسیرت ورکشاپ میں شرکت کرنا تھی۔ن ماز فجر منصورہ کی جامع مسجد میں ادا کی، نہایت شاندار مسجد تھی۔ جماعت اسلامی کی ایک خاص وصف کہ جماعت اسلامی کی قیادت اور ارکان کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔

نماز فجر کے دوران جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق میرے برابر میں کھڑے تھے، نہ کوئی سیکورٹی نہ کوئی خصوصی جگہ، نماز پڑھ کر وہ واپس اکیلے اپنے دفتر کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ بات کہ منصورہ اسلامی جمعیت طلبہ، جماعت اسلامی کے لئے ایک بڑی نرسری سمجھی جاتی ہے اس وقت حقیقی معنوں میں سمجھ آنے لگی جب تعمیر سیرت کیمپ میں حاضر ہوئے۔ ایک ایک مقرر کا لیکچر دل میں اترتا گیا، کلاسوں میں ننھے بچوں کو کیسے پڑھایا جائے، ان کی کیسی تربیت کی جائے یہ سب بہت آسان طریقے سے سمجھایا جانے لگا۔ تقریباً ایک بجے پہلا سیشن ختم ہوا جس کے بعد دوستوں کے ہمراہ منصورہ کے مختلف حصوں کا وزٹ کیا۔

اورینج ٹرین:۔

یہاں سے فارغ ہونے کے بعد گریٹر اقبال پارک، شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد اور مینارِ پاکستان کے لیے رخت سفر باندھا۔ ہمارا یہ سفر بذریعہ اورینج ٹرین تھا۔ میں نے اورنج لائن ٹرین سروس شروع ہونے کے بارے میں کافی سنا ہوا تھا اور اس حوالے سے انٹرنیٹ پر بھی بہت کچھ دیکھا اور پڑھ بھی رکھا تھا۔ ہم منصورہ سے ٹرین کے سٹیشن تک پیدل گئے جو کچھ فاصلے پر تھا۔ سٹیشن پر موجود ڈیوٹی پر مامور اہلکار ماسک کے بغیر کسی کو اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ لہذا ہمارے اکثر ساتھیوں نے نئے ماسک خریدے جبکہ میرے پاس پہلے سے ماسک موجود تھا جسے فوراً سے بھی پیشتر منہ پر چڑھا لیا۔ اسٹیشن سڑک کے برابر نہیں بلکہ اوپر بنا ہوا تھا۔ ساتھ بیٹھے ہمارے قافلے کے قائد نور خان انصاری نے بتایا کہ اسے اوورہیڈ برج کہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ماموند پبلک سکول کے ڈائریکٹر نور خان انصاری اور ماموند پبلک سکول باجوڑ کے اساتذہ کرام سمیت دیگر چند احباب بھی سفر کر رہے تھے۔ ہم برقی سیڑھیاں چڑھ کر اسٹیشن میں داخل ہوئے۔ ہر جگہ عام سیڑھیوں کے ساتھ ایسکیلیٹر یعنی برقی سیڑھیاں بھی تھیں۔ ہم جیسے تھکے ہارے مسافروں کیلئے یہ بہت آرام دہ ثابت ہو رہے تھے کیونکہ اس پر کھڑے ہو کر اوپر جانے کا بہت مزہ آتا ہے۔

پلیٹ فارم خالی تھا۔ اور ہمارے علاوہ مسافر نہیں تھے۔ ٹرین کے آنے میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نور خان انصاری سے (جنہوں نے پہلے اس پر سفر کیا تھا ) جلدی جلدی اس حوالے سے سوالات کرنے شروع کر دیئے۔ اتنے میں ٹرین کی آواز سنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو ایک خوبصورت چمکتی لمبی ٹرین پلیٹ فارم پر آ کر رک گئی۔ اور اس کے آٹومیٹک دروازے خودبخود کھل گئے۔ ہم جلدی سے ٹرین پر چڑھ گئے۔ ٹرین میں رش زیادہ نہ تھا۔ مجھے ٹرین بہت پسند آئی کیونکہ ٹرین میں بہت ساری خوبیاں دیکھیں۔ جاتے وقت ٹکٹ خریدنے کے بجائے کوپن (ٹکٹ) خرید کر ساتھ لے کر جانے ہوتے ہیں۔ ٹرین کے اندر دائیں اور بائیں جانب اور اوپر پکڑنے کے لیے ہینڈل لگے ہوئے تھے۔ ٹرین اندر سے بہت صاف اور دلکش تھی۔ تمام اسٹیشنوں پر اور ٹرین کے اندر صفائی تھی۔ اسٹیشن بڑے اور کھلے تھے۔ ٹرین کے کل بیس سے زائد اسٹیشن تھے جن میں سے ایک انڈر گراؤنڈ اسٹیشن بھی تھا۔ ٹرین میں اردگرد کے گھروں کی چھتیں صاف نظر آ رہی تھیں۔ راستے میں بہت ساری چیزیں دیکھیں۔ میں پہلی بار اورنج لائن ٹرین میں بیٹھا تھا۔ ہم نے اس میں تقریباً پورا لاہور گھوم لیا۔ ہم اورینج ٹرین سے اتر بھی گئے مگر پھر دل بھرا نہیں۔

مینار پاکستان:۔

رکشہ سے اترتے ہی ہماری پہلی نظر مینار پاکستان پر پڑی جو دور ہی سے نظر آ جاتا ہے۔ وہ مینار پاکستان جسے ہم بچپن سے کتابوں اور انٹرنیٹ سمیت جگہ جگہ دیکھتے آئے تھے آج وہ ہمارے سامنے تھا۔ مینار پاکستان ملکی سطح پر پاکستان کی ایک قومی یادگار عمارت ہے جسے لاہور میں عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ اسے یادگار پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ اس جگہ کو اس وقت منٹو پارک کہتے تھے جو سلطنت برطانیہ کا حصہ تھی۔ آج کل اس پارک کو اقبال پارک کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر کے سلسلہ میں 1960 میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اور اسی کمیٹی کی منظور شدہ سفارشات اور ڈیزائن پر اس مینار کی تشکیل ہوئی تھی۔ اس کا ڈیزائن ترک ماہر تعمیرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960 میں شروع کیا اور 21 اکتوبر 1968 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔ پنجاب حکومت نے 2015 میں اقبال پارک کو 125 ایکڑ رقبے تک وسعت دیتے ہوئے 981 ملین کی خطیر رقم سے پارک کی تزئین و آرائش کا آغاز کیا اور سبزہ زار، فوارے، راہداریوں اور جھیل کی توسیع اور مزید خوبصورتی کے ساتھ پوئیٹ ریسٹورنٹ اور نیشنل ہسٹری میوزیم کا زبردست اضافہ کیا۔ اب تاریخی عالمگیری مسجد، شاہی قلعہ اور علامہ اقبال کے مزار کو بھی پارک کی حدود میں شامل کر کے اسے ”گریٹر اقبال پارک” کا نام دیا گیا ہے اور ایک نیا محکمہ پارک اینڈ ہارٹیکلچرل قائم کر کے اس کا انتظام و انصرام اسے دے دیا گیا ہے۔ ہم نے مقامی گائیڈ سے مینار پاکستان کے بارے میں مکمل بریفنگ لینے کے بعد تصویری سیشن کیا اور مینار پاکستان کے احاطے میں واقع نیشنل ہسٹری میوزیم کا رخ کیا۔

نیشنل ہسٹری میوزیم:۔

نیشنل ہسٹری میوزیم میں داخلے کے لیے کرونا کرائسز کے پیش نظر اقدامات بہت سخت کیے گئے تھے۔ داخل ہوتے ہی ہمیں پلاسٹک کے گلوز، ماسک اور دیگر لوازمات سے لیس کر کے گائیڈ نے ہمیں اندر جانے کیلئے متوجہ کیا۔ نیشنل ہسٹری میوزیم میں قدم رکھتے ہی آپ تحریکِ پاکستان بلکہ اس سے قبل کے دور میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ میوزیم 35 ہزار مربع فٹ پر محیط ہے جہاں 1857 سے لے کر 1947 تک اور اس کے بعد آزادی کے 70 سالوں کی تاریخ کو ڈیجیٹائزڈ طریقہ کار سے محفوظ کیا گیا ہے۔ سابقہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کا یہ ایک تاریخ ساز اقدام ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس میوزیم میں ہزاروں ڈیجیٹائزڈ تصاویر اور 1800 سے زائد آڈیو ریکارڈنگز موجود ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں آپ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا خطاب بذریعہ 3D ہولوگرام دیکھ سکتے ہیں۔ تاریخ سے جڑا ایک سینما ہال بھی اس میوزیم کی زینت ہے۔ یہ میوزیم تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ آپ کے بزرگوں کی حصولِ آزادی کے لیے جدوجہد اور قربانیوں سے آپ کا اٹوٹ بندھن استوار کر دیتا ہے۔ اس میوزیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی (PHA) کے سر ہے۔ نیشنل ہسٹری میوزیم کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ آپ تحریکِ قیامِ پاکستان کے تمام سنگ ہائے میل بچشمِ خود ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ایسی بہت سی نادر تصاویر اور اشیاء یہاں موجود ہیں جو تاریخ کو زندہ کر کے آپ کے سامنے لے آتی ہیں۔ (جاری ہے)

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button