بلاگزلائف سٹائل

جب قاتل برفباری نے سیاحوں کی گاڑیوں کو موت کے کنوؤں میں بدل ڈالا

خالدہ نیاز

عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب میں کوئی چیز ایک بار دیکھتی ہوں تو دوبارہ اس کو دیکھنے کا دل نہیں کرتا لیکن گزشتہ روز میں نے اپنی دوست کے وٹس ایپ سٹیٹس پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں اس کا بھتیجا ڈانس کر رہا تھا، وہ ویڈیو مجھے اتنی اچھی لگی کہ نہ صرف میں نے اس ویڈیو کو دو تین مرتبہ دیکھا بلکہ اس سے ویڈیو سینڈ کرنے کا کہا تاکہ میں اس کو اپنے ادارے کے ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر پوسٹ کر سکوں۔

گزشتہ کئی دنوں سے ملک کے بالائی علاقوں میں برفباری جاری ہے جس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ملک بھر سے سیاحوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، کئی علاقوں سے لوگ مری، نتھیاگلی اور باقی بالائی علاقوں کو جا چکے ہیں اور وہاں سے اپنی تصاویر اور ویڈیوز بھی وقتاً فوقتاً شیئر کر رہے تھے جس کو دیکھ کر میرا دل بھی مچل رہا تھا برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لیے لیکن مصروفیات کی وجہ سے نہ جا سکی۔

آج صبح میں معمول کے مطابق دفتر میں خبریں بنانے میں مصروف تھی کہ اچانک ایک خبر نے میری ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ ٹی وی کی جانب دیکھا تو مری میں کئی دنوں سے لطف اندوز ہونے والے سیاحوں کی گاڑیاں برف میں ڈھکی نظر آئیں، کچھ افراد کے لے لیے اپنی گاڑیاں ہی موت کا کنواں بن گئیں جبکہ ہزاروں افراد امداد کی اپیل کرتے نظر آئے۔

کئی روز سے ہم مری کے حوالے سے خوبصورت تصاویر اور ویڈیوز دیکھ رہے تھے لیکن آج صبح سے ہم مری کے حوالے سے سیاحوں کی چیخ و پکار، گاڑیوں میں پڑی لاشیں، خوراک اور پانی کی کمی کے حوالے سے سن اور دیکھ رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ سیاحوں کو کیا پڑی تھی کہ سیر کو چلے گئے، برفباری نہیں دیکھی تھی کیا جو چلے گئے؟ بھائی ان کو کیا پتہ تھا کہ مری کی سیر ان کے لیے زندگی کی آخری سیر ہو گی، وہ تو یہ سوچ کر گئے ہوں گے کہ لطف اندوز ہونے کے بعد گھر واپس آ جائیں گے اور پھر یہاں باقی رشتہ داروں کو وہاں کی خوبصورتی دکھائیں گے۔

حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ جہاں سیاحوں کی زیادہ تعداد کے حوالے سے وہ سوشل میڈیا پر پوسٹنگ کر رہے تھے وہاں متعلقہ اداروں کو بھی چوکنا کر دیتے کہ موسم شدید ہے، برفباری ہو گی تو راستے میں سیاحوں کی سہولت کے لیے انتظام کا بندوبست کریں لیکن نہیں یہاں تو ہم تب جاگ جاتے ہیں جب اموات ہوتی ہیں، اموات سے پہلے تو ادارے حرکت میں نہیں آتے۔

اپوزیشن والے بھی جاگ گئے ہیں کہ حکومت بے حس ہے۔ میرے خیال میں یہ سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے، سامنے آنے اور بے یار و مدد گار لوگوں کی مدد کرنے کا وقت ہے۔ ہوٹلز نے بھی اب جا کے اعلان کیا ہے کہ وہ برفباری کے دوران سیاحوں کو مفت رہائش اور خوراک مہیا کریں گے لیکن کل تک یہی ہوٹل والے لوگوں سے ہزاروں روپے بٹور رہے تھے۔ انہوں نے بھی چھریاں تیز کر دی تھیں جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنی گاڑیوں میں ہی رات گزارنے پر اکتفا کیا اور یوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اب تک مری سانحہ میں 22 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ان میں سے ایک خاندان کے 8 افراد بھی شامل ہیں۔ سانحہ میں ضلع مردان کے چار کزنز بھی خالق حقیقی سے جا ملے ہیں جبکہ زیادہ تر افراد اموات کو دیکھ کر سکتے میں ہیں۔ حکومت نے مری کو آفت زدہ قرار دیا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی مری جیسے سانحات کی روک تھام کے لیے کڑے قواعد لاگو کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔

کل تک جو بچے برفباری میں ڈانس کرتے ہوئے خوش دکھائی دے رہے تھے اور ان کے بڑے ان کی ویڈیوز بنا رہے تھے آج وہ بے یقینی کی صورتحال سے دوچار جبکہ بچے خوف کا شکار ہیں۔ آج میڈیا بھی اس سانحے کو ہر اینگل سے کور کرنے کوشش کر رہا ہے، ایک دو دن تک اس پہ بات ہو گی اور پھر ہم سب باقی سانحات کی طرح اس سانحے کو بھی بھول جائیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے اقدمات کئے جائیں کیونکہ اگر سیاحت کو فروغ دینا ہے تو لوگوں کو آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ سہولیات بھی دینا ہوں گی اور قواعد و ضوابط بھی بنانا ہوں گے، متعلقہ اداروں کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا اور سیاحوں کو بھی اپنے حصے کی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button