پشتو نظم کی دنیا کے باپ عبدالرحیم مجذوب بھی انتقال کر گئے
معروف پشتو شاعر اور سینئرقانون دان عبدالرحیم مجذوب انتقال کر گئے، ان کی رحلت سے پشتو شعر و ادب کی دنیا ایک عظیم شاعر سے محروم ہو گئی۔
مرحوم عبدالرحیم مجذوب شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ایک بہترین محقق اور ماہر قانون دان تھے، انہیں نظم میں ایک مقام حاصل تھا یہاں تک کہ انہیں نظم کی دنیا کا باپ کہا جاتا ہے۔ وہ 14 جنوری 1935 کو نار صاحبداد میداد خیل (سرائے نورنگ۔ لکی مروت) میں پیدا ہوئے، ان کے والد عبدالکریم علاقے کے بڑے زمیندار اور جاگیردار تھے لیکن خود انہوں نے سادگی اپنائی۔ ان کا تخلص مجذوب تھا اور اسی تخلص کی خصوصیات ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، وہ اپنی طرز زندگی اور سوچ و فکر کے اندازسے واقعی مجذوب ہی تھے۔
انہوں نے ابتدائی مذہبی تعلیم گاؤں کی مسجد سے حاصل کی، قرآن پاک سیکھا اور دیگر دینی کتب پر عبور حاصل کیا، والد نے ان کے لئے گھر پر ہی اتالیق مقرر کر رکھا تھا۔ سکول کے زمانے ہی سے وہ اعلیٰ پائے کے شعراء اسد اللہ خان غالب، ڈاکٹر علامہ اقبال، خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا کی شاعری میں گہرے دلچسپی لینے لگے تھے۔ 1950میں نورنگ ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے بنوں سے ایف اے اور اسلامیہ کالج پشاور سے بی اے کیا، اپنے والد کی نصیحت پر انہوں نے پشاور یونیورسٹی کے لاء کالج سے 1956 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
انہیں فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا اور کئی فارسی کتب کا پشتو میں ترجمہ کیا، اس کاوش پر انہیں پشتو ڈیپارٹمنٹ بطور لیکچرر جوائن کرنے کی پیشکش ہوئی جو انہوں نے ٹھکرا دی کیونکہ ان کے والد انہیں ایک وکیل دیکھنا چاہتے تھے، انہوں نے بنوں اور لکی مروت میں وکالت بھی کی، ادبی تنظیموں کی بنیاد رکھی اور شاعری میں نام کمایا۔
عبدالرحیم مجذوب کو اپنی تصنیفات اور شعری مجموعوں کی وجہ سے خاصی شہرت ملی، ان کی بہترین تصنیفات اور شعری مجموعوں میں د نور مظہرونہ (مظاہر نور) اور شاعری کے آٹھ مجموعوں پر مبنی کلیات د مجذوب (کلیات مجذوب) قابل ذکر ہیں۔
مرحوم عبدالرحیم مجذوب نے پشتو شاعری میں نئے موضوعات اور رجحانات متعارف کرائے اور شعری ادب کے لئے نئی راہیں کھولیں۔ نار صاحبداد میداد خیل (سرائے نورنگ) میں نماز جنازہ کے بعد ان کی مقامی قبرستان میں تدفین کر دی گئی ۔مرحوم باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر فضل الرحیم مروت کے والد بزرگوار تھے۔