بچپن میں جلنے والی انم کیسے روایتی طعنوں کا سامنا کرتی ہے ؟
سمن خلیل
ہمارے معاشرے میں ایک عجیب و غریب سی روایت چلی آرہی ہے، قد چھوٹا ہو تب بھی لوگوں کو مسئلہ ہوتا ہے ، قد لمبا ہو تب بھی ، کالی رنگت تو جیسے کوئی گناہ ہو، لوگ کسی کو بھی اس کے حال میں نہیں چھوڑتے، جو بندہ جیسا ہے اللہ کی ذات نے بنایا ہے کیا ضرورت ہے ہم اس کو غلط القاب سے پکارئیں جس سے دوسرے انسان کی دل آزاری ہو اور اسکے دکھی دل سے کوئی آہ نہ نکلے۔
چند دنوں پہلے ایسا ہی ایک واقعہ میری انکھوں کے سامنے پیش آیا ، ایک لڑکی انم جو بچپن میں کسی وجہ سے جل گئی تھی، درجنوں آپریشن اور مستقل علاج کروانے کے بعد اس کی زندگی گزارنے کے قابل تو ہوچکی ہے تاہم ان کے چہرے اور جسم پر اب بھی جلنے کی نشانات موجود ہیں لیکن وہ انم کو اتنا ذہنی تکلیف نہیں دیتے جتنا کہ لوگوں کی باتیں دیتی ہیں۔
چلو آپ لوگ کسی مریض سے اس کے حال کے بارے میں پوچھتے ہو لیکن اس طرح کون پوچھتا ہے ؟ کہ ہائے یہ کب اور کیے ہوا، اتنی اچھی شکل ہے اور یہ جلے ہوئے داغ، بیٹا کوئی علاج کروایا کہ نہیں، ہائے ہائے!اس کو تو زمانہ قبول ہی نہیں کریگا۔ یہی نہیں لڑکی کو ماں باپ کو ایک ہی روایتی طعنہ ملتا ہے کہ اب اس سے کون شادی کریگا، شادی کب ہوگئی، آج کل تو لوگ اچھی اچھی صورت والوں کو بھی منہ نہیں لگاتے، بچاری کیسے جیئے گی پہاڑ جیسی زندگی؟
انم کے مطابق وہ بہت چھوٹی تھی کہ وہ اس حادثے کا شکار ہوگئی’ ہم بچے تھے اور میں اپنے ہم عمر بچے کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ کھیل کھیل میں ہم نے آگ لگا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے میں آگ کی لپیٹ میں آگئی۔’
وہ کہتی ہیں کہ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ حادثے کے فوراً بعد مجھے ہسپتال لےجایا گیا ، میری حالت اتنی خراب تھی کہ کئی ہسپتالوں نے مجھے داخل کرنے سے انکار کردیا لیکن پھر ایک پرائیوٹ ہسپتال میں میرا علاج شروع ہوا۔ پہلے ٹو ڈاکٹروں نے کہا کہ میں زندہ نہیں بچ سکتی اور چند گھنٹوں کی مہمان ہوں۔ اس وقت میں بہت تکلیف میں تھی ، ماں کو دیکھتی تو وہ رو رو کر میری زندگی کی دعائیں مانگتی، ابو جان لاکھوں روپے لگانے کو تیار تھے اور میں ایک زندہ لاش جیسے ہسپتال کے بستر پر پڑی تھی۔نہ میں ہل سکتی تھی، نہ کچھ اچھی طرح کھا پی سکتی تھی ، میرا پور پور زخمی تھا جیسے میری زندگی سوکھے پتوں کی طرح بکھرکے رہے گی ہو۔
مجھے دیکھنے لوگ آتے ، ہمدردی کے چار الفاظ بول کر چلے جاتے تھے، نہ جانے کیوں مجھے ان کے الفاظ سے نفرت سی ہونے لگ گی تھی۔ میں نے اپنی ایک آنٹی کو امی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس نے ایسا کیا گناہ کیا تھا جو اس کو اتنی بڑی سزا مل گی ؟ یہ سن کر میں بہت خفہ ہوئی کہ نہ جانے میں نے کونسے گناہ کردیا جس کی مجھے اتنی بڑی سزا ملی گئی؟
سکول میں بھی بچے مجھے طرح طرح کے ناموں سے پکارا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بچوں کے ایک گروپ نے میرے چہرے کو دیکھ کر کہا کہ ‘دیکھو یہ بھوت بنگلے سے نکل آئی ہے۔’
جلد پر موجود نشانات کو چھپانے یا سرے سے غائب کرنے کے لئے انم کو آئے روز مفت مشورے بھی ملتے رہیں، کبھی ٹیکسی ڈرائیورز، کبھی کوئی رشتہ دار، بیوٹی پارلرخاتون، بینک کے گارڈ ہر کوئی انہیں آزمودہ نسخے اور ٹوٹکے کے مشورے دیتے ہیں۔
انم کے بقول اب بھی مجھے لوگ کہتے ہیں کہ میک اپ استعمال کروں، لال لپ سٹک لگاؤں اس کے اوپر فاؤنڈیشن لگاؤں تو سب چھپ جائے گا۔ آج بھی میں جب کبھی بیوٹی پارلر میک اپ کروانے جاؤں تو اکثر میرے کہے بغیر ایسا میک اپ کرادیتے ہے کہ چہرے کے سارے نشان چھپ جاتے ہیں، کبھی تصویر بنوانے فوٹو سٹوڈیو جاؤں تو وہاں بھی فوٹو شاپ کے ذریعے میرے چہرے کے سارے داغ غائب کردے جائے ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ آخر کار میں نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے یہی میری زندگی کا حصہ ہے اور یہ سب ہونا میرے نصیب میں تھا، اب میں اپنے نصیب سے نہیں لڑسکتی اور اگر دنیا والوں کی پروا کی تو خود کو ڈپریشن کی مریضہ بنادونگی۔