بلاگزخیبر پختونخواسیاست

محسن داوڑ کا نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان، قوم پرست جماعتوں میں لیڈرشپ کا فقدان یا کوئی اور وجہ؟

طیب محمد زئی

خیبرپختونخوا میں قوم پرست سیاسی جماعتیں تقسیم در تقسیم ہورہے ہیں اور نئی سیاسی جماعتیں جنم لے رہی ہیں جس سے ایک طرف قوم پرست سیاسی حلقوں میں مایوسی پھیل رہی ہے تو دوسری جانب پختون سیاسی کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

آج بروز منگل یکم ستمبر کو پختون قوم پرستی کی سیاست کے نام پر ایک نئی سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی جس کے سربراہ شمالی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے منتخب رکن محسن داوڑ ہے جبکہ پارٹی میں دیگر قوم پرست رہنماء معروف قانون دان عبد الطیف آفریدی، افرا سیاب خٹک، بشرہ گوہر اور جمیلہ گیلانی اور دیگر شامل ہیں۔

مذکورہ تمام افراد ماضی میں بڑی قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی  کے مرکزی اور صوبائی سطح پر عہدیدار رہ چکے ہیں تاہم اے این پی نے مذکورہ افراد میں سے بعض کو پارٹی پالیسیوں کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بعد پارٹی سے نکال دیا تھا جس کے بعد مذکورہ افرادآپس میں مسلسل رابطے میں رہے اور کافی مشاورت اور غور خوص کے بعد  یکم ستمبر کو نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔

دوسری جانب اس وقت پختونوں کے حقوق کے لیے سیاست کے میدان میں دیگر قوم پرست جماعتیں بھی موجود  ہیں جن میں محمود خان اچکزئی کی پختون خوا عوامی ملی پارٹی اور آفتاب احمد خان شیرپاو کی قومی وطن پارٹی شامل ہیں جن کا سیاسی قوت موجود ہے اور دونوں جماعتوں کے پاس ووٹ بینک بھی ہے جبکہ لوکل سطح پر تھوڑی بہت منظم بھی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر چھوٹی جماعتیں بھی ہیں تاہم اُنکی سیاسی اثر رسوخ نہ ہونے کی برابر ہے۔ اس وقت پختون بلٹ خصوصا سابق قبائلی اضلاع میں پختون تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک غیر پارلیمانی مزاحمتی تحریک بھی موجود ہے جن کا ضم اضلاع کے عوام میں کافی اثر رسوخ ہے اور محسن داوڑ نے آزاد حیثیت سے اس تنظیم کے بل بوتے پر الیکشن جیتا تھا اس سے قبل نئی سیاسی جماعت نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کا سربراہ محسن داوڑ عوامی نیشنل پارٹی یوتھ کے صوبائی رہنماء تھے اور بعد میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے پی ٹی ایم کی تحریک میں سرگرم ہو گئے تھے اور بعد ازاں الیکشن میں کامیابی بھی ملی ۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی نئی سیاسی جماعت کو پختون قوم میں وہی پذیرائی نہیں ملے گی جس کی توقع کی جارہی ہے کیونکہ ماضی میں اے این پی کی کوکھ سے کئی سیاسی جماعتوں نے جنم لیا  70کی دہائی میں محمود خان اچکزئی کے والد  عبدالصمد خان اچکزئی نے نیشنل عوامی پارٹی (موجودہ  اے این پی) سے راہیں جدا کیے اور پختون خوا عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی، 80کی دہائی میں افراسیاب خٹک نے قومی انقلابی پارٹی کی بنیاد رکھی،  90 کی دہائی میں افضل خان لالہ نے پختونخوا قومی پارٹی کی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی، مشرف دور کے دوران اجمل خٹک مرحوم کی نیشنل عوامی پارٹی نے جنم لیا، اور پھر بیگم نسیم ولی خان نے پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے اے این پی ولی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی، لیکن سوائے محمود خان اچکزئی کی پختونخوا عوامی ملی پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کو عوامی پذیرائی  نہیں ملی اور ان میں سے اکثر جماعتیں واپس عوامی نیشنل پارٹی میں ضم ہوئے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق این ڈی ایم کو بھی مستقبل میں پختون قوم پرستوں میں پذیرائی نہ ملنے کا خدشہ موجود ہے اور ہوسکتا ہے اس نئی جماعت کا حشر بھی ماضی کی جماعتوں سے کچھ جدا نہ ہو کیونکہ خیبر پختونخوا سمیت بلوچستان اور سابق قبائلی اضلاع میں اے این پی تحریک کی جڑیں بہت گہری ہے اور پختون قوم پرستی کے نام پربننے والی ہر نئی سیاسی جماعت کو اے این پی کے ورکرز کو توڑنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان ولی باغ چارسدہ کو اپنی سیاسی کعبہ تصورکرتے ہیں اور ولی باغ کی سیاسی پیرو کاری کو سعادت سمجھتے ہیں اس لیے این ڈی ایم کو وہی پذیرائی نہیں ملے گی جس کا پارٹی کے اندر توقع کی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ این ڈی ایم میں شامل دیگر قوم پرست رہنماء  افراسیاب خٹک، بشرا گوہر، جمیلہ گیلانی اور دیگر نے اپنی سیاسی کیرئیر میں عوامی سیاست نہیں کی بلکہ براہ راست یا سینیٹر اور مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئے جبکہ محسن داوڑ اور عبد الطیف آفریدی عوامی ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق سیاسی جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے پاس عوامی لیڈرز اور کارکنان ہوں کیونکہ پارلیمانی سیاست میں عوامی لیڈر جماعت کو بہت فائدہ دیتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button