مری میں دادی کی یاد اور مال روڈ کا منظر
نشاء عارف
یہ دو سال قبل کی بات ہے جب میں مری کے لیے اپنے گھر والوں کے ساتھ صبح سویرے نکلی اور مری کے پہاڑوں میں داخل ہوئی تو اچانک دادی کی یاد آئی، مجھے یاد ہے کہ گاوں کی تمام خواتین اکٹھی ہو کر کسی کی مزار پر جاتی تھیں، تمام محلے کی خواتین اپنے بال بچوں کو لے کر تفریح کہ غرض سے کبھی کاکا صاحب،کبھی پیر بابا تو کبھی کسی قریبی قبرستان پر لے جاتی تھی،یہ اس دور کی خواتین کی سیر وتفریح کا سادہ سا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔
جب بھی کسی مزار پر جاتے ہم سب بچے بہت ہی لطف اندوز ہوتے، مزار کی زیارت کرنے کے بعد دوپہر کو تمام خواتین کھانا کھاتی کوئی گھر سے ساگ لایا ہوتا کوئی جوار کی روٹی تو کوئی مزار کے ساتھ دکانوں سے کباب خرید کر لاتی اور کھایا جاتا۔ شام کو واپسی ہوتی اور پھر کئی دنوں تک اس تفریح کو بار بار یاد کیا جاتا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ سیر و سیاحت میں بھی تبدیلی آئی اب کوئی پارک تو کوئی کسی پہاڑی علاقوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔
میں ان ہی خیالوں میں گم تھی کہ مری پہنچ گئے،روم میں سامان رکھا اور فریش ہو کر سب ہی مال روڈ کی طرف نکل آئے،ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی جس کی طرف بھی دیکھ رہی تھی وہ خوش تھا لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی،لگتا تھا سب ہی بہت مطمئن اور خوش ہیں ،مال روڈ مری پر بچے بھی خوشی سے چہل پہل رہے تھے،کوئی چائے پی رہا تھا تو کوئی تصویروں میں مگن تھا۔
سیرو تفریح انسانی صحت کے لئے کتنی ضروری ہے جب اس حوالے سے ذہنی و نفسیاتی ماہر ڈاکٹر اعزاز جمال سے بات ہوئی تو انکا کہنا تھا کہ سیر وتفریح سے انسان کی ٹینشن ختم ہو جاتی ہے ظاہر ہے جب بھی کوئی پکنک پر جاتا ہے تو وہ اکیلا نہیں ہوتا ضرور یار دوست یا فیملی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس مصروفیت کے دور میں یہ ایک اچھا موقع ہوتا ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے مل لیتا ہے یا نئے لوگوں کو دیکھ لیتا ہے اسی وجہ سےذہنی و نفسیاتی علم کے مطابق انسان کا ذہنی دباو کم ہو جاتا ہے اور وہ خود کو ریلیکس محسوس کرتا ہے۔
ہم بھی مری تقریبا پوری فیملی ایک ساتھ گئے تھے دوپہر کا کھانا اور پھر شام کی چائے ساتھ ہی پی لی کیونکہ عام روٹین میں بہت کم وقت ملتا ہے کہ سب ایک ساتھ میں دوپہر کا کھانا کھائیں اور شام کی چائے ایک ساتھ پی لے اور بہت ریلیکس محسوس کیا فیملی کے ساتھ۔
ڈاکٹر اعزاز جمال نے کہا کہ تفریح سے انسان کی ذہنی کیفیت تبدیل ہو جاتی ہے اور گھریلو یا دفتری مسائل سے کچھ وقت کے لیے چھٹکارہ مل جاتا ہے لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ لوگ بہت مصروف ہو گئے ہیں اگر گھر میں سات بندے ہیں تو وہ ساتوں اپنے الگ الگ کام میں مصروف ہوتے ہیں. گھر میں اگر پانچ بچے ہیں تو وہ صبح سکول جاتے ہیں پھر مدرسہ جاتے ہیں اس کے بعد جو تھوڑا بہت ٹائم مل جاتا ہے وہ ٹی وی لیپ ٹاپ یا فیس بک، انسٹاگرام ، ٹک ٹاک میں گزر جاتا ہے اس وجہ سے لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور اور بیمار ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر اعزاز جمال کے مطابق جب بھی انسان کسی بھی ذہنی تناو یا دباؤ کا شکار ہو تو ضرور کوشش کریں کہ چند دنوں کے لیے روزانہ روٹین سے نکل کرگھر سے باہر سیر و تفریح کے لیے چلا جائے وہاں نئی کمپنی مل جاتی ہے جس سے ڈپریشن تقربیا 60 سے 80 فیصد کم ہو جاتی ہے، سیر کے دوران یار دوست سے ہنسی مذاق ہوتی رہتی ہے اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے مسائل کو ڈسکس کیا جاتا ہے جو خود بخود ذہنی سکون کا باعث بنتی ہے۔
اعزاز نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ انسان جب گھر سے باہر جاتا ہے تو اس کو باہر ایک نیاماحول مل جاتا ہے جس سے اس بندے کی ذہنی کیفیت تبدیل ہو جاتی ہے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ تبادلہ خیال سے ذہنی تناؤ میں کمی ہوتی ہے.
ڈاکٹر نے بتایا کہ اس جدید دور میں انسان بھی مشین بن گیا ہے جو کام اور گھریلو مسائل میں مصروف ہوتا ہے جبکہ اپنی صحت پر توجہ نہیں دیتا جسکی وجہ سے ذہنی بیماریوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
ڈاکٹر اعزاز جمال نے کہا کہ زیادہ تر لوگ ذہنی بیماری پر یقین ہی نہیں کرتے جسطرح جسم کام کاج سے تھک جاتا ہے تو لوگ آ رام کرکے تھکان دور کرتے ہیں اور اس بارے میں سب عام و خاص جانتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بہت پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی ذہنی صحت کا خیال نہیں رکھتے بلکہ وہ یہ جانتے بھی نہیں ہے کہ ذہن بھی بیمار ہوتا ہے جس کو علاج کے ساتھ ساتھ سیر و سیاحت،یار دوست کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور وقت گزارنے سے بھی آ سانی سے دور کیا جاسکتا ہے۔
دو دن مری میں گزار کر واپس شام کو اپنے گھر پہنچے اور رات کا کھانا وقت پر کھا کر جلدی سو گئے کیونکہ صبح بچوں کو سکول، جبکہ گھر کے اور لوگوں نے جاب پر جانا تھا۔ڈاکٹر کی بات بالکل درست ہے نیند کافی پرسکون کی اور کئ دنوں تک مری کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ مری میں خاندان والوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت اب بھی مجھے یاد ہے اور ان لمحات کو میں کبھی بھول نہ پاؤں گی۔