حضرت عمرؓ کو ابولولو نے کیوں شہید کر دیا تھا؟
مولانا خانزیب
آپ آج کے دن یعنی یکم محرم الحرام کو شہید ہوئے۔ آپ کا نام عمر بن خطاب بن نفیل، کنیت ابو حفص، لقب الفاروق یعنی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا، تھا۔ یہ لقب آپ کو اسلام لانے کے بعد ملا۔ حضرت عمرؓ کا نسب قریش مکہ میں کعب بن لوی پر آ کر نبیؐ کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ عام الفیل (جس سال ابراہہہ نے ہاتھیوں کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا تھا) کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے۔
عمر فاروق کا قاتل ابولولو فیروز کو پیر نہاوندی بھی کہا جاتا ہے، وہ عمر بن خطاب کا قاتل تھا، وہ ایرانی الاصل اور مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا۔ اس نے مدینہ منورہ میں عمر بن خطاب کو 26 ذو الحجہ کو خنجر سے وار کر کے زخمی کیا، تین دن بعد آپ ان زخموں سے شہید ہوئے اور آپ کو یکم محرم کو دفن کیا گیا۔
ابو لولو کا اصلی نام فیروز نہاوندی تھا، مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا، ابولولو اس کی کنیت تھی، اردو بولنے والے اسے ابولولو فیروز کہتے ہیں، لیکن اس کا اصلی نام فیروز نہاوندی تھا۔
رومیوں کی ایرانیوں سے جنگ میں اسے اسیر بنایا گیا اور جب مسلمانوں کی رومیوں سے جنگ ہوئی تو مسلمانوں نے اسے اپنا قیدی بنا لیا، یہ اسیر اور غلام مغیرہ بن شعبہ کے حصے میں آیا۔
ابولولو کا مالک اس سے بہت زیادہ پیسے لیتا تھا۔ اس نے خلیفہ دوم عمر بن خطاب سے شکایت کی۔ عمر فاروق نے بات سن کر جواب دیا کہ تمہارے ہنر کے مقابلے میں یہ زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ اس پر ابولولو نے کہا کہ وہ عمر فاروق کے لیے بھی ایک چکی بنائے گا عالم شرق و غرب میں جس کا چرچا ہو گا۔ عمر فاروق نے اپنے ساتھیوں کو کہہ دیا کہ اس نے مجھے قتل کی دھمکی دی ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
علامہ شبلی نعمانی کی عمر فاروق کے حوالے سے مستند کتاب ‘الفاروق’ میں ایسے سیکنڑوں کارنامے آپ کے دور خلافت کے بیان کئے گئے ہیں جو آپ کے بعد پھر کسی اور مسلم رہنما کے دور میں آج تک نہیں ملے۔
سیدنا عمر ؓ بچپن میں اونٹ چرایا کرتے تھے۔ آپ کے والد انھیں اونٹوں کے پیچھے دوڑاتے تھے تاکہ یہ بہادر اور سخت جان بن جائیں۔ سیدنا عمرؓ کا شمار مکہ کے پڑھے لکھے اور اشراف میں شمار ہوتا تھا۔ آپ جب جوانی کی عمر میں کو پہنچے تو تجارت کا پیشہ اختیار کیا، اللہ تعالیٰ نے انھیں خوب مال ودولت سے نوازا تھا۔
نبیﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو کمزور لوگ شروع میں ایمان لے آئے، سرداران مکہ نے کمزور مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کیا تاکہ لوگ اسلام سے دور رہیں۔ کمزور مسلمان حد سے زیادہ ستائے جاتے تھے۔ ان حالات میں اسلام کو کسی قوی اور طاقت ور کی ضرورت تھی جس کے ذریعے اسلام کو عزت ملے۔
نبی اکرمﷺاللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے اے اللہ! دو بندوں (ابو جہل (عمروبن ہشام) یا عمر بن خطاب) میں سے جو تجھے محبوب ہے اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ ایک روایت میں ہے کہ اے اللہ عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما، اللہ نے اپنے نبی کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا۔
سیدنا عمرؓ اس دور میں اسلام قبول کرتے ہیں جب لوگ ڈر رہے تھے اور اپنے اسلام کو چھپا رہے تھے مگر عمرؓ اپنے قبول اسلام کا اعلان کعبہ میں کھڑے ہو کر سرداران قریش کے سامنے کرتے ہیں اور دوپہر تک ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں عمرؓ کے قبول اسلام کے بعد ہم ہمیشہ عزت سے رہے۔
مسلمانوں نے عیسائیوں کا محاصرہ کیا، عیسائی قلعہ بند ہوکر لڑتے رہے، بالآخر ہمت ہار کر صلح کی پیشکش کی اور اپنے اطمینان کے لئے یہ شرط رکھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں سے صلح کا معاہدہ لکھا جائے، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ صحابہ کرام سے مشاورت کے بعد بیت المقدس پہنچے اور ایک تاریخ ساز معاہدہ ترتیب دیا، جس میں عیسائی اقلیت کی جان و مال، عزت و آبرو، جاہ و حشمت، کلیسا و صلیب اور مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت دی۔ یہ معاہدہ اسلام کی اقلیت نواز تعلیمات کا آئینہ دار ہے، جس کی تفصیل درج ہے: تاریخ طبری میں اس معاہدے کی تفصیلات ہیں جو فلسطین کے یہودیوں کے ساتھ طے پایا تھا۔
”یہ وہ امان ہے، جو اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر نے ایلیاء کے لوگوں کو دی ہے۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے، اس طرح پر کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو اور نہ ان کے احاطہ کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی، مذہب کے بارے میں جبر نہ کیا جائے گا، نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیاء میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے، ایلیاء والوں پر فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں اور یونانیوں اور چوروں کو نکال دیں۔ ان یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا، اس کی جان اور مال کو امن ہے تاکہ وہ جائے پناہ تک پہنچ جائیں اور جو ایلیاء ہی میں رہائش اختیار کر لے تو اس کو بھی امن ہے اور اس کو جزیہ دینا ہو گا۔ ایلیاء والوں میں سے جو شخص اپنی جان و مال لے کر یونانیوں کے ساتھ چلا جانا چاہے تو ان کو، ان کے گرجاؤں کو اور صلیبوں کو امن ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائیں۔ جو کچھ اس تحریر میں ہے، اس پر اللہ کا عہد، رسول خدا، خلفاء اور عام مؤمنین کے ذمہ ہے بشرطیکہ یہ جزیہ ادا کرتے رہیں۔”
اس تحریر پر حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن العاص، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہم گواہ ہیں اور یہ تحریر 15 ہجری میں لکھی گئی۔
امام ابو یوسف کے کتاب الخراج میں ذکر ہے کہ ملک شام کی فتح کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ کو جو فرمان لکھا، اس میں یہ الفاظ درج ہیں: مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کرنے پائیں، نہ ان کا مال بے وجہ کھائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان کے ساتھ طے کی ہیں، ان سب کو پورا کرو۔
ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک ضعیف شخص کو بھیک مانگتے دیکھا۔ پوچھا: ’’کیوں بھیک مانگتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے اور مجھ میں ادا کرنے کی قدرت نہیں ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس کو اپنے ساتھ گھر لائے اور کچھ نقد رقم دے کر بیت المال کے داروغہ کو حکم دیا کہ ’’اس قسم کے معذوروں کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کر دیا جائے‘‘۔ اسی موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’واللہ! یہ انصاف کی بات نہیں کہ ان لوگوں کی جوانی سے ہم فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں ان کو نکال دیں۔”
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد مبارک میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے حیرہ کی فتح میں جو معاہدہ لکھا، اس میں یہ الفاظ تھے: ’’اور میں نے ان کو یہ حق دیا کہ اگر کوئی بوڑھا شخص کام کرنے سے معذور ہو جائے یا اس پر کوئی آفت آئے یا پہلے دولت مند تھا پھر غریب ہو گیا اور اس وجہ سے اس کے ہم مذہب اس کو خیرات دینے لگیں تو اس کا جزیہ موقوف کر دیا جائے گا اور اس کو اور اس کی اولاد کو مسلمانوں کے بیت المال سے دیا جائے گا جب تک وہ مسلمانوں کے ملک میں رہے، لیکن اگر وہ غیر ملک میں چلا جائے تو مسلمانوں پر اس کا نفقہ واجب نہ ہو گا۔”
ایک دفعہ حضرت عمر فاروق کے ہاں بکری ذبح کی گئی۔ آپ نے غلام سے فرمایا کہ سب سے پہلے میرے پڑوسی یہودی کو گوشت بھیجا جائے۔ آپ نے بار بار یہی تاکید فرمائی۔ غلام نے عرض کیا کہ آپ بار بار کیوں تاکید فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے بار بار ہمسایہ کے متعلق تاکید فرمائی ہے، اس لئے میں بھی بار بار کہتا ہوں۔