کیا واقعی افغان طالبان کی پالیسی بدل رہی ہے؟
عبداللہ یوسفزئی
کائنات کا قاعدہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں تبدیلیاں نظر آتی رہتی ہے، ان تبدیلیوں کو قبول کرکےانسان آگے بڑھ سکتا ہے اور جو اس سے انکار کرتا ہے وہ دنیا سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ جنگی سازوسامان کا مثال لے لیں، فرسٹ جنریشن وار میں لوگ تلواروں سے کھلے میدان میں لڑتے تھے، لیکن فورتھ اور ففتھ جنریشن وار میں لوگ جدید ھوائی جہاز،ایٹم بم اور دماغی کھیل کا سہارا لیکر لڑتے ہیں۔ افغان طالبان بھی زمانے کیساتھ چلنے کو تیار نظر آرہے ہیں، حالانکہ ماضی میں وہ خود کو بدلنے کے لئے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں تھے۔
2001ء سے قبل جب افغانستان پر طالبان قابض ہوگئے تو وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ بیرونی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے سے ہی ایک پائیدار ریاست کا وجود ممکن ہے۔ سویت یونین تو پہلے سے ہی ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی، امریکہ اور اس کےاتحادیوں کو بھی طالبان سے خطرات تھے، پڑوسی ممالک بالخصوص غیر مسلم ریاستیں خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے تھے۔ پاکستان واحد ایسا ملک تھا جسے طالبان سے نسبتا دیگر ممالک زیادہ خطرہ نہیں تھا۔ جس کا اندازہ پاکستان میں تعنیات سابق افغان طالبان سفیر ملا عبداالسلام ضعیف اپنی کتاب میں یوں کرچکے ہیں کہ مشرف دور میں جب افغان میں ان کی حکومت ختم ہوچکی تھی، ایک رات خواب میں دیکھا کہ میرا بھائی مجھے ذبح کررہا ہے، اگلے دن اسلام آباد سے مجھے امریکہ کے حوالے کیا گیا، تب میں سمجھ گیا کہ بھائی کا مطلب پاکستان تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان پاکستان کو قریب تر محسوس کررہے تھے- پاکستان کیلئے دل میں نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے ہی دنیا کی نظروں میں پاکستان مشکوک بن گیا تھا. بہر حال کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے طالبان کا تختہ امریکہ نے الٹ دیا.
اب طالبان ایک بار پھر افغانستان میں مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔ ممکنہ کامیابی کے بعد انہیں پھر سے اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا سکتا ہے۔ اس خدشہ کے پیش نظر طالبان نے 2013ء میں قطر میں سیاسی دفتر کھولی، جہاں پر امریکہ اور طالبان کے درمیان دسمبر 2019ء میں شروع ہونے والے مذاکرات پائیہ تکمیل تک پہنچے. مستقبل قریب میں ترکی کیساتھ بھی قطر میں مذاکرات ممکن ہے، جو ابھی تک کابل ایئر پورٹ سے فوج نکالنے پر آمادہ نہیں ہے- چند دن قبل طالبان کی وفد نے چین کا دورہ کیا، چینی حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ طالبان سے چین کو خطرہ نہیں، افغان سرزمین چین کے خلاف استعمال نہیں ہوگی. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان ماضی کے برعکس خارجہ پایسی کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں.
داخلہ پایسی بھی بدل رہی ہے- پہلے دور حکومت میں عورتوں کی تعلیم پر پابندی عائد تھی-بیشتر لڑکیوں کی اسکول کو بوائز اسکولوں میں تبدیل کیا گیا- اس صورتحال میں لڑکوں کی تعلیم بھی متاثر ہوئی کیونکہ 70 فیصد اسکولوں میں خواتین اساتذہ بچوں کو پڑھاتی تھی، جنہیں پڑھانے سے روک دیا گیا- خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں تھی- طالبان کا کوئی رکن کسی پر ظلم کرتا یا قتل کرتا تو ان کا احتساب نہیں تھا- لیکن اب صورتحال مختلف ہے، طالبان نے واضح کیا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، اسلامی احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں روزگار کی اجازت ہوگی، خواتین بغیر محرم کے گھر سے نکل سکتی ہے- چند دن پہلے ایک مزاحیہ فنکار کا قتل ہوا جس پر پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر احتجاج ہوا، جس کے بعد طالبان نے اعلان کیا کہ واقعہ کی تحقیقات کی جائے گی اور ملوث دو ملزمان کو سزا ملے گی۔ اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اپنا سافٹ امیج رکھنا چاہتے ہیں.
پہلے دور حکومت میں طالبان ٹیکنالوجی اور سائنس کے سخت مخالف تھے، ٹیلی ویژن پر مکمل پابندی تھی- کیمرہ، ٹیلیفون وغیرہ بھی ان کی نظروں میں ناپسندیدہ اشیاء تھے۔ 1990ء میں جب سلیم صافی انٹرویو کرنے افغان گئے تو صرف اسی وجہ سے گرفتار کیا کہ ان کے پاس کیمرہ تھا۔ لیکن اب وہ ٹوئٹر کا استعمال بھی کرتے ہیں، سلیم صافی کے ساتھ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر انٹرویو بھی دیتے ہیں۔ اور بغیر کیمرے والے صحافیوں کے مقابلے میں ان صحافیوں کو فوقیت دیتے ہیں جن کے پاس کیمرہ موجود ہو.
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ طالبان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں بھی تبدیلی آرہی ہے، اور ٹیکنالوجی کو بھی تسلیم کرچکے ہیں- کیونکہ انہیں اندازہ ہوچکا ہے کہ ان تبدیلیوں کے بغیر ریاست چلانا ممکن نہیں ہے.
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں