پشاور کی ندا جس نے معاشرے کی مخالفت کے باوجود اپنے دل کی سن لی
نازیہ جاوید
مرد کا عورت کی زندگی پر بےجا اختیار ایک لمحہ فکریہ ہے ، سوچ رہی ہوں کہ کہاں تک سنو گے اور کہاں تک سناوں کیونکہ ہزاروں یہ شکوے ہیں میں کیا کیا بتاوں۔ یہ قصہ ناتمام اس دور کا نہیں ، وقتی نہیں اور نہ ہی کسی محدود مدت کی بات ہے بلکہ یہ تو صدیوں پرانی وہ ذہنیت ہے جو عورت کی تقدیر کو اپنے ہاتھوں لکھتے آرہی ہے اور عورت کو بے بس ، لاچار اور کمزور جیسے القابات دیکر دبایا گیا جس کے باعث عورت اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں کرسکتی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دور بدل گیا ، وقت کی رفتار میں تیزی آگئی، زندگی گزارنے کے طور طریقے بدل گئے، ٹیکنالوجی آسمان کی اونچائیوں کو چھونے لگی لیکن اس کے باوجود مرد کی ذہنیت پست کی پست ہی رہ گئی اور عورت کو اپنا ماتحت اور زرخرید علام سمجھنے والا یہ مرد وہی کا وہی رہ گیا۔
آج زیر موضوع ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ باصلاحیت بھی ہے، اپنی پسند ناپسند، احساسات اور جذبات بھی رکھتی ہے لیکن اپنی خواہش اور پسند کے کام کرنے کا اختیار اس کو نہیں ہے۔
یہ کہانی پشاور سے تعلق رکھنے والی ندا کی ہے جس کی والدین کی فوتگی اس وقت ہوئی جب وہ فرسٹ ائیر کی طالبہ تھی تب اسے فکر معاش نے گھیر لیا تو اس نے کسی پرائیوٹ سکول میں ٹیچنگ شروع کرلی اور ساتھ ساتھ پڑھائی کو بھی جاری رکھا۔ بہن، بھائیوں میں بڑی ہونے کے ناطے ندا گھر یلوں اخراجات میں بھی حصہ لیتی تھی اور یوں وقت گزرتے گرزتے اس نے چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی کردی اور خود بھی سسرال چل بسی۔
شادی کے بعد جیسے ندا کی دنیا ہی بدل گئی، رشتوں میں بھائی کی جگہ دیور اور بہن کی جگہ نند نے لے لی اور ان رشتوں کو اپنانے، سمجھنے اور ساتھ لیکر چلنے کے لئے کافی وقت درکار ہوتا تھا ۔ اگر چہ ندا کو شوہر کی طرف سے تعاون حاصل تھا س لئے وہ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور معاشرے میں تخلیقی کردار کو رونما کرنے صحافت کی دنیا میں داخل ہونا چاہتی تھی لیکن اس کو کیا پتہ تھا کہ تقدیر اس کو کچھ اور دکھانے والی ہے۔
ٹی این این کاسہارا لیکر اس نے بہت کچھ سیکھا اور آگے بڑھنے کے لئے اس نے اپنا یوٹیوب چینل کھول لیا لیکن جب اس نے یہ بات اپنی سسرال والوں کو بتائی تو ان کو ندا کی یہ بات ہضم نہ ہوئی اور انہوں نے ندا کی اس اقدام کی مخالفت میں کسی شور شرابے، دنگا فساد اور الزام تراشی سے گریز نہ کیا اور یہاں تک رشتہ ختم کروانے کے درپے ہوگئے۔
ایسے حالات میں عورت بیجاری پس کہ رہ گئی اور دل کی مراد دل میں ہی رہ گئی اور ندا نے اپنی خواہش کو دل میں دنا دیا لیکن وہ روز سوچتی کہ کاش وہ صحافت میں کام کرسکے۔ وقت گرزتا رہا اور پھرحالات میں بہتری آتے ہی ندا دوبارہ کام کی طرف لوٹ آئی اب کی بار ندا نے ٹھان لی ہے کہ وہ ہر حال میں صحافت کے میدان میں کام کریگی اور خود کو دنیا پر منوائے گی۔