بونیر کے سکھ اور مسلمان ، بھائی چارے اور امن کے سفیر
عبداللہ یوسفزئی
ضلع بونیر میں آج بھی متحدہ ہندوستان کی جھلک نظر آتی ہے یہاں پرآج بھی سکھ اورمسلمان برادری کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں- دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے سکھ اور مسلمان باقاعدہ ایک دوسرے کی مذہبی اور ثقافتی رسومات میں شرکت کرتے ہیں- ان کا رہن سہن، زبان اور ثقافت ایک ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ بونیر کے سکھ اور مسلمان بھائی چارے اور امن کے سفیر ہیں-
بلاشبہ ضلع بونیر بھی ان اضلاع میں سے ایک ہے جو دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکے تھے- جس کی وجہ سے یہاں کے باسیوں کو خصوصاً اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا نہ ہی یہ لوگ مذہبی رسومات کھل کر مناسکتے تھے نہ عبادات- لیکن اب حالات ٹھیک ہوگئے ہیں- ایک سروے کے مطابق بونیر میں تین سو کے لگ بھگ سکھ خاندان رہتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے امن سے متاثر ہوکر ہی سکھ برادری کے لوگ یہاں آ کر آباد ہونے کو فوقیت دے رہے ہیں-
پیر بابا بازار میں کپڑے کا کاروبار کرنے والے وریندر کمار کے مطابق ہمیں کبھی یہ نہیں لگا کہ ہم اقلیت ہیں، مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہمارا رشتہ اور تعلق ویسا ہی ہے جیسا اپنی برادری کے لوگوں سے ہیں- ہم ایک دوسرے کی مذہبی رسومات، دکھ درد اور خوشی میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں-
ان کے بقول مسلمان برادری کا ہم پر اتنا یقین ہے کہ وہ اپنی امانتیں ہمارے پاس رکھتے ہیں- جب بینکنگ سسٹم متعارف نہیں ہوا تھا تو دور دراز علاقوں سے لوگ آکر ہمارے بڑوں کے پاس اپنی امانتیں رکھتے تھے- وریندر کے مطابق گاہک میں زیادہ تر مسلمان ہی آتے ہیں اور اسے ہم جو ریٹ بتاتے ہیں وہ چھیڑ چھاڑ کئےبغیر دے کر چلا جاتا ہے جیسے عام طور پر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم انصاف سے کام لیتے ہیں تاکہ یہ بھروسہ ٹوٹ نہ جائے-
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں جوڑ بازار میں کشش فوٹوسٹوڈیو چلانے والےسویندر کمار عرف کشش نے بتایا کہ میں سالوں سے یہاں کام کرتا ہوں، روز موٹرسائیکل پر تیس منٹ کا راستہ طےکرکے یہاں آتا ہوں لیکن میں نے کبھی خود کو غیر محفوظ نہیں سمجھا- ان کا کہنا ہے کہ رمضان میں گھر جاتے ہوئے میں راستے کی کسی مسجد میں افطاری ضرور دیتا ہوں کیوں کہ اس سے سکون اور ثواب ملتا ہے- وریندر کے مطابق رمضان میں مسلمان بھائیوں کے سامنے کھانے پینے سے گریز کرتا ہوں تاکہ ان کو تکلیف نہ پہنچے-
انہوں نے بتایا کہ دوبار انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب بابری مسجد پر حملہ ہوا تو مسلمانوں کی طرف سے سخت رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا- دوسری بار مشکل میں تب آئے جب دہشت گردوں نے بونیر پر حملہ کیا- لیکن ہم جلد ان آزمائشیں میں کامیاب ہوئے اور آج خوش وخرم زندگی گزارہے ہیں-
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران طالبعلم ایشان نے بتایا کہ سکول اور کالج میں میرے بیشتر دوست مسلمان تھے، ہم نے بھائیوں کی طرح وقت گزارا- وہ کہتے ہیں کہ جماعت نہم میں جب رزلٹ آیا تو سب سے زیادہ نمبر انہوں نے اسلامیات کے مضمون میں لئے تھے، لوگوں کے لئے یہ کافی عجیب تھا لیکن میرے لئے یہ نارمل سی بات تھی کیوں کہ میں نے پوری توجہ سے محنت کی تھی-
پیربابا سے تعلق رکھنے والے مقامی امام مسجد مفتی عزیز بتاتے ہیں کہ اسلام ہمیں تمام مذاہب کے پیروکاروں سے بہترین سلوک کرنے کا درس دیتا ہے، خوش قسمتی سے اہل بونیر اسلامی احکامات کے عین مطابق اقیتی برادری سے بہترین سلوک کرتے ہیں- انہوں نے بتایا کہ دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی سکھوں کے ہاتھ کی بنی سوغات بہت شوق سے کھاتا ہوں، جو بونیر کی پہچان بن چکی ہے- انہوں نے بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں مدارس کے طلباء اکثر مجھ سے ڈیمانڈ کرتے تھے کہ پیر بابا کی سوغات کھلائیں-
مفتی عزیز مزید بتاتے ہیں کہ پوری دنیا کو اہل بونیر سے سیکھنے کی ضروت ہے کیونکہ انسانیت کی پوری داستان آپ کو یہاں ملے گی- دنیا کو سیکھنے کی ضروت ہے کہ جس معاشرے میں انسانیت ہو وہاں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا مذہب کیا ہے- اور یہی وجہ ہے کہ اہل بونیر امن کے سفیر کہلائے جاتے ہیں-