بلاگز

سگریٹ سے چرس اور آئس تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی

رانی عندلیب

پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسداد منشیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے, اس دن کا مقصد منشیات کے مضر اثرات کو اجاگر اور لوگوں کو آگاہی دیناہے، انسدادمنشیات کے عالمی دن کا آغاز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد سے ہوا جو 1987 میں منظور کی گئی تھی۔

پورے پاکستان کی طرح جامعہ پشاور کے پیوٹا ہال میں بھی انسداد منشیات کی روک تھام کے حوالے سے سیمنار منعقد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر فضل ناصر نے کی جبکہ مہمان خصوصی عباس احسن (سی سی پی او) پشاور تھے۔

اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ منشیات کا ناسور ہمارے نوجوان طبقے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، کتنے ہی نوجوان اس زہر کا نشانہ بن چکے ہیں اور کتنے خاندان پورے کے پورے نشے میں ڈوب چکے ہیں اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل سے ناامید ہو چکے ہیں۔

ہماری نوجوان نسل کا اس بری عادت سے بچاؤ کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے؟ یہ ایک معمہ بن چکا ہے جس کا کوئی حل نہیں۔

سگریٹ نوشی کو منشیات کی جانب پہلا قدم قرار دیا جاتا ہے، اچھائی اور برائی کے درمیان باریک سی لکیر تو ہے اور جب وہ لکیر ہی مٹ جائے یا کوئی اسے کراس کر لے تو پھر کوئی برائی چھوٹی یا بڑی نہیں رہتی۔

ہمارے نوجوان اکثر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے کو اپناتے ہیں، نوجوان نسل کے بگڑنے می\ں زیادہ تر ان کے والدین کی لاپرواہی اور ان کے دوستوں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، بری صحبت میں بیٹھنا ہو یا اچھی صحبت میں، صحبت کا اثر ضرور لوگوں پہ ہوتا ہے یا دولت کی فراوانی، انتہائی غربت، دوستوں کی بری صحبت، اپنے مقاصد میں ناکامی، بے چینی اور مایوسی، والدین کے گھریلو تنازعات بھی نشہ کے آغاز کے اسباب ہو سکتے ہیں۔

اس لیے تو آج ہماری نوجوان نسل سگریٹ، چرس، آئس. شراب اور جوئے میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی تباہ کر رہی ہے، نشہ جسم کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی مفلوج کر دیتا ہے، منشیات ایک ایسی گندی بیماری ہے جو ایک دفعہ اس کا عادی ہو جائے تو آسانی سے اس نشے سے خود کو نہیں چھوڑ سکتا۔

اس وقت دنیا بھر میں 15 سے 64 سال کی عمر کے تقریباً 35 کروڑ لوگ کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں، پاکستان میں تقریبا ایک کروڑ سے زائد افراد نشے میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں ہر سال نشہ کرنے والوں کی تعداد میں پانچ لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں سرکاری سطح پر اے این ایف، کسٹم ایکسائز سمیت 24 ایجنسیاں منشیات کے خلاف فعال ہیں لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود یہ زہر تیزی سے معاشرے کی رگوں میں اترتا جا رہا ہے، ہماری اعلی درس گاہوں میں زیر تعلیم نوجوان انتہائی تیزی سے نشے کو فیشن اور شوق کی خاطر اپنا رہے ہیں، یہ ایک کرب ناک حقیقت ہے۔ جب ان بچوں کے والدین کو پتہ چلے گا تو ان کے دلوں پر کیا گزرے گی لیکن تب تک بہت دیر ہو گئی ہو گی۔ منشیات کے عادی بنانے کے لیے یہ لوگ بچوں اور نوجوان نسل کو نشانہ بناتے ہیں، شروع میں یہ بچوں کو سگریٹ مفت میں دیتے ہیں کہ پی لو بہت ہی اچھی چیز ہے، جب بچوں کو خوب اس کا عادی بنا لیتے ہیں تب بچوں کو کہتے ہیں کہ اب یہ فری نہیں ملے گی لہذا بچے گھر سے چوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، گھر سے ایک ایک چیز چرا کر بیچتے ہیں اور اس طرح اپنا نشہ پورا کرتے ہیں۔

سگریٹ سے چرس اور آئس کا سفر طے کرنے میں نوجوانوں کو دیر نہیں لگتی، بعض ایسے نوجوان بھی ہوتے ہیں جو سگریٹ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے اس میں چرس کا انتخاب کر لیتے ہیں اور بعض دفعہ آئس سے بھی گریز نہیں کرتے، نوجوان آئس اور حشیش کا استعمال بڑے شوق سے کرتے ہیں اور یہ زہر تیزی سے ان میں پھیل رہا ہے۔

علاقے میں کہاں کہاں منشیات فروخت ہو رہی ہے علاقہ پولیس اور دیگر ادارے اس سے باخبر ہوتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں۔

میرے خیال سے منشیات فروشی پر پابندی اور اس کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اپنی جگہ پر لیکن ان سب سے ضروری یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں پر خاص توجہ دیں اور ان کے ہر عمل پر نظر رکھیں، بچوں کے ساتھ ان کے دوستوں پر بھی نظر رکھیں کہ ان کا بچہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے سب سے کلوز دوست بن جائیں تاکہ بعد میں آنے والے نقصانات سے بچ جائیں کیونکہ آج کے بچے والدین کے لیے اچھا سرمایہ اور ملک کے لیے ایک بہترین مستقبل کی ضمانت ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button