جب ایک لڑکے نے مجھ سے پرس چھیننے کی کوشش کی۔۔
رانی عندلیب
فیملی چاہیے جتنا بھی لڑکی کو سپورٹ کرے لیکن معاشرے کے رویے کی وجہ سے ان کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور پھر لڑکیاں جتنی بھی بہادر بن جائیں لیکن یہ گھر سے باہر جاتی ہیں تو معاشرے میں چند تنگ نظر لوگوں کے اعتراضات اور بعض کھلنڈروں کی بری نظروں سے بچ نہیں سکتیں۔ چاہے وہ لاکھ کوشش کیوں نہ کریں برے لوگ انہیں جینے نہیں دیتے اور کسی نہ کسی طرح سے انہیں ہراساں کر کے ان کو زیر کیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو دبانے کا ہر حربہ آزمایا جاتا ہے۔
چند دن پہلے میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ روز ہر دوسری لڑکی کے ساتھ گلی، محلے یا بازار میں پیش آتا ہو گا لیکن وہ خاموش رہتی ہیں، شاید اپنی انا کے لیے یا پھر لوگوں کے طعنوں کی وجہ سے، اپنا وہ واقعہ آج میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کرتی ہوں۔
19 جون کو صبح سکول کے لیے روانہ ہوئی، چونکہ زیادہ تر سکول بند ہیں تو صبح کے وقت خاموشی ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر سکول ہے، میں اور میری بہن باتیں کرتے ہوئے ایک گلی سے گزریں تو سامنے سے موٹرسائیکل پہ ایک لڑکا آیا، چونکہ ہم باتوں میں مگن تھے تو راستہ دے کر ہم دوسری گلی میں داخل ہوئے، اب یہ بائیک والا پیچھے سے آیا، شاید وہ ہمیں نوٹ کر رہا تھا، جب ہم چوتھی گلی میں داخل ہوئے تو یہ بائیک والا پیچھے سے آیا اور میرے ساتھ بائیک آہستہ کر کے مجھ سے پرس چھینے کی کوشش کی۔
چونکہ میں مینٹلی تیار نہیں تھی اس طرح کی حرکت کے لیے تو چند منٹ کے لیے میرا دماغ رک گیا، پھر میرے دماغ نے کام کرنا شروع کیا، پرس تو چھیننے میں ناکام ہوا لیکن میں نے اس لڑکے کو پکڑنے کی کوشش کی تاکہ اس کو خوب ماروں، اس نے مجھ سے جان چھڑائی اور بھاگنے کی کوشش کی، وہ بائیک پہ تھا، میں پیدل تھی پھر بھی اس کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے خوب دوڑ لگائی لیکن میں پکڑنے میں ناکام ہو گئی۔
چونکہ یہ واقعہ سکول کے نزدیک ایک گلی میں پیش آیا تو بائیک والے نے سکول کے سامنے والا راستہ اختیار کیا، میں دل ہی دل میں اس بات پہ مطمئن ہو گئی کہ سکول میں تو سی سی ٹی وی والے کیمرے لگے ہیں یہ بندہ ان میں آیا ہو گا، اب جیسے ہی سکول گئی، تمام ٹیچرز کو سارا قصہ سنایا، اس غرض سے کہ چونکہ تمام ٹیچرز کے گھر سکول کے قریب ہیں، لہذا وہ خود کی حفاظت کریں اور محتاط ہو جائیں کیونکہ جو واقعہ میرے ساتھ ہوا وہ کل کو ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بات میں نے سب کو کیا بتائی کہ اب ایک اور ایشو سامنے آ گیا۔ اور یہ اہشو تمام ٹیچرز کے ساتھ ہوا تھا اور سب نے چھپایا تھا۔ اب ایک ایک ٹیچر اپنا واقعہ بتا رہی تھی کہ صبح کے وقت تو گلیاں خالی ہوتی ہیں تو ایک شخص نے ان کو کس انداز سے ہراساں کیا تھا، نازیبا حرکات کر کے ڈرایا تھا، کسی سے چادر کھینچی تھی تو کسی کے سامنے نازیبا حرکات کر کے، اور تمام ٹیچرز کو میں نے کہا کہ اب تک تم لوگ کیوں چپ تھے تو مجھے بتایا گیا کہ اپنی عزت کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ کہیں کوئی نہ ہنسے اور اس دوران بھی ایک ٹیچر نے مجھ سے کہا کہ سب کے سامنے یہ بات کیوں کی؟ مجھے اس پہ بہت غصہ آیا کہ میں کیوں چھپاؤں؟
ظالم کے سامنے چپ رہنا بھی اپنے آپ پر ظلم سے کم نہیں، میں نے انہیں سمجھایا کہ نہ اس میں چھپانے کی کوئی بات ہے اور نہ شرم کی، اس لیے اپنے حق کے لیے آواز اٹھاؤ۔
اسلام نے یہ معاشرہ مردوں کا بنایا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں مرد جو چاہے وہ کریں۔ خواتین کی عزت کو مرد پامال کرے اور وہ چپ چاپ سہتی رہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ لڑکیاں اکیلے گھر سے باہر نہیں جا سکتیں ورنہ مرد اس کو اکیلے گلی میں دیکھ کر مختلف طریقوں سے ہراساں کرے گا یا اس کا پرس یا موبائل یا قیمتی اشیاء دن دہاڑے لوٹنے کی کوشش کرے گا، کیوں ان کے باپ کا راج ہے کیا؟ کیا اس طرح کی نازیبا حرکات کر کے خود کو مرد کہتا ہے؟ لیکن عورتوں نے اپنے دل بڑے کیے ہیں جو اپنی عزت کے لیے خاموش رہ جاتی ہیں اور اس طرح کے مردوں کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔
ان کے گھر میں بیٹھی ان کی ماں کیا کہتی ہو گی کہ میرا بیٹا نہایت شریف ہے یا بہن اپنے بھائی کی شرافت کے قصے سنائے گی، ان کو پتہ نہیں کہ ان کا شہزادہ باہر کیا گل کھلا رہا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ سعودیہ حکومت کی طرح ایسا قانون بنایا جائے کہ چوری کرنے والوں کے ہاتھ اور نازیبا حرکات کرنے والوں کے اعضاء کاٹ کر پوری عوام کو دکھائے جائیں تاکہ ایسی حرکات کرنے والے ہزار بار سوچیں لیکن یہ چوری اور نازیبا حرکات کرنے کی جرات نہ کر سکیں۔