بلاگز

‘موسیقی ميری روح کی غذا اور تنہائی کا بہترین ساتھی’

سلمہٰ جہانگیر

بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور اب بڑے ہوکر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوگئی   کیونکہ جب  آج بھی ہم  فارغ وقت میں موسیقی سنتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موسیقی کا ہر لفظ ہمارے  جسم میں داخل ہوکر ہماری روح کو جگاتی ہے ان سے مسرت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

21 جون کو دنیا  بھر میں موسیقی کا عالمی دن  منایا جاتا ہے جس کا مقصد موسیقی  کے ذریعے امن، محبت اور بھائی چارے کو فرووغ دینا ہے۔ موسیقی کے عالمی دن کا آغاز فرانس کے شہر پیرس سے ہوا جبکہ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کے مخلتف ممالک میں خصوصی طور موسیقی کے محفلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں گلوکار اور موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو موسیقی تنہائی کا ساتھی ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی حالت سفر میں ہو تو وہ سفر کے دوران موسیقی سے لطف اندواز ہوتا ہے ۔ اسی طرح  زیادہ طرح لوگ  اکیلے یا تنہائی میں کنگناتے ہیں  اور اپنے جذبات کو موسیقی کےذریعے بیان کرتے ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں زیادہ  تر لوگ نہ صرف موسیقی کو پسند کرتے ہیں بلکہ وہ باقاعدہ طور پر موسیقی  سننے کے لئے وقت نکالتے  ہیں   لیکن دوسری جانب  یہ لوگ  جو موسیقی کو پسند کرتے ہیں ان کی نظروں میں موسیقار کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں موسیقی پسند ہے لیکن موسیقار نہیں جس کی  ایک وجہ   یہ ہے کہ کسی زمانے میں  پشتو زبان  کی شاعری کا معیار اتنا گرایا گیا تھا  اور غیراخلاقی شاعری بہت عام ہوگئی تھی جس سے سننے والے لطف اندوز ہونے  کی بجائے اکتا جاتے ہیں ۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  موسیقی  میں جدت  دیکھنے کو آئی   اور یہ ہماری بہت بڑی  خوشی قسمتی  ہے کہ  ایک ایسے صوبے میں  ( جو دہشتگردی  اور  بدامنی  سے متاثر رہا ) نوجوان  تعلیم یافتہ  گلوگار موسیقی کی دنیا میں آئے جو کہ نہ صرف معیاری شاعری کا انتخاب  کرتے ہیں بلکہ  ان کے گیت اور نغموں میں وطن سے محبت کا جذبہ اور محبت کا پیغام ہوتا ہے۔

اگر ہم خیبرپختونخوا  کی مثال دے  تو  یہاں  کی مٹی اس لحاظ سے کافی ذرخیز ہے  اور  یہاں  ایسے بہت سے موسیقاروں نےجنم لیا  ہے جنہوں نے نہ صرف پشتو موسیقی کو  ایک الگ مقام پر پہنچا بلکہ لازوال گیت تخلیق کیے اور گائے۔ان موسیقاروں میں  ، استاد خیال محمد، ماہ جبین قزلباش( مرحومہ ) ،  زرسانگہ ، احمد گل استاد، ہارون باچا، کرن خان، وگمہ ،گل پانڑہ  او دیگر شامل ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ  ہمارے خطے کی موسیقی  کو پروان چڑھنے میں انہی موسیقاروں نے بڑا کام کیا ہے  جس کی بدولت آج دنیا میں ہماری زبان کو ایک الگ پہچان ملی  ہے  کیونکہ موسیقی  کی نا  تو کوئی زبان ہوتی ہے  اور ناہی کوئی سرحد، سریلی آواز اور دل   کو چھولینے والی موسیقی  چاہے کسی بھی زبان میں  ہو اپنے سننے والوں کو خیالی دنیا  میں لیکر جاتے ہیں ، جہاں وہ ہر قسم  کی قید  اپنے آپ کو آزاد تصور کرتا ہے  اور  موسیقی سنتے وقت اپنی ایک  الگ  دنیا تخلیق کرتا ہے۔

ان سب باتوں کا نچوڑ یہ ہوا کہ انسان کا موسیقی سے بہت گہرا تعلق ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انکار کے باوجود  ہم کسی نہ کسی طرح موسیقی سے بندھے گئے ہیں  جبکہ ہمیں چاہیے کہ  ہم  اپنے علاقے موسیقاروں کی قدر کریں اور ان کے فن کو زندہ رکھنے  میں ان کی مدد کریں  کیونکہ یہی لوگ  ہزاروں مشکلات اور نفرتوں کے باوجود ہمیں خوشیاں دیتے ہیں  تو انسانیت کے ناطے ہمارا بھی یہ حق بنتا ہے کہ انہیں خوشیاں دے اور انہیں اپنا سمجھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button