بلاگز

"وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بندہ کوئی ہنر سیکھ لے’

نشاء عارف

کسی ملک میں تربیت یافتہ افراد جتنے زیادہ ہوں گے وہ ملک اتنا ہی ترقی کرے گا کیونکہ مکمل تربیت  یافتہ  اور پیشہ وارانہ مہارت کے حامل افراد کسی بھی ملک کی ترقی کی ضمانت ہوتے ہیں۔

محترم  قارئین ! آج ہم آپ کو چند ان خواتین کے بارے میں بتائینگے جہنوں نے غربت میں فنی مہارت حاصل کرکے خود کو کامیاب بنایا۔

پشاور سے تعلق رکھنے  والی  بلقیس  نے  غربت  کی وجہ سے میڑک  کے بعد  تعلیم  کو خیبر آباد کہہ کر گھر پر سلائی کا کام شروع کیا ، شروع میں وہ صرف اپنے گھر کے کپڑے  سیتی تھی  لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے  بہت کم معاوضے پر محلے کے دیگر لوگوں  کے کپڑے سینا شروع کر دئیے  اور اب وہ  اچھے ڈیزائن کے کپڑے سیتی ہیں  اور بہت دور دور سے خواتین اور لڑکیاں  ان کے پاس اپنے کپڑے بنوانے کے لئے لاتی ہیں۔بقلیس کے مطابق  اب  وہ مہینے میں  کافی کماتی ہیں  جس سے  وہ اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا باتھ بھی بٹاتی ہیں۔

پرائیوٹ سکول سے بیوٹی سیلون تک کا سفر

نورینہ کا تعلق بھی پشاور سے ہیں ، انہوں نے بی اے کرنے کے بعد ایک سکول میں ملازمت  اختیار کی  اور وہاں انہیں  7 ہزار روپے مہینہ  دیا جاتا تھا جس سے  بمشکل انکا اور انکے  گھر کا گزارہ  ہوتا تھا  تاہم اس دوران نورینہ نے  بیوٹی سلون  سے  3 مہینے  میں  بیوٹیشن کا کورس کرلیا اور اپنے گھر میں ہی  ایک  کمرہ  سیٹ کرکے بیوٹی پارلر بنایا اور کچھ ہی عرصے میں  وہ ایک اچھا اور بڑا پارلر بن گیا۔

نورینہ کے بقول تمام نوجوان اور خاص کر لڑکیاں سرکاری نوکریوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے کوئی ہنر سیکھ کر خود کا کاروبار شروع کرے  کیونکہ وقت ضائع  ہونے سے بہتر ہے کہ بندہ کچھ نہ کچھ فنی ہنر سیکھ کر خود کا کامیاب بنائے۔

اس میں کوئی شک نہیں  کہ موجودہ دور میں  تعلیم حاصل کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے اور تعلیم حاصل کرکے انسان اچھے  اور برے کی تمیز کرسکتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو  آج کل  کے جدید دور میں دنیا کی ضروریات پورا کرنے کے لئے تعلیم  بے حد ضروری  ہے لیکن دور حاضر میں تعلیم یافتہ  بے روزگار گھوم رہے ہیں  اور حکومت بھی ان  کو نوکریاں دینے سےقاصر ہے جس کی وجہ  ان نوجوانوں میں مایوسی پھیل چکی ہیں اور وہ احساس محرومی کا شکار ہوگئے ہیں۔

بیروزگاری ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ نوجوان جن میں ذہانت، قوت اورصلاحتیں موجود ہیں مگروہ نوکری اور روزگارسے محروم ہیں۔ بلاشبہ تعلیم انسان کو شعور اور معاشرتی آداب سکھا کر معاشرے میں رہنے کے قابل بناتی ہے جسے حاصل کرنے سے انسان ایک قابل قدر شہری بن جاتا ہے جبکہ فنی تربیت انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اسے باعزت روزگار کمانے کے قابل بناتی ہیں تاکہ وہ معاشی طور پر خوشحال زندگی بسر کرسکے۔

لہٰذا ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی اچھا ہنر بھی سکھائے تا کہ مستقبل میں انہیں بیروزگاری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ ہی وہ اپنے گھر والوں اور معاشرے پر بوجھ بنے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button