بلاگز

گئے وقتوں میں مرغ کھانے کی عیاشی روز روز نہیں ہوتی تھی

سلمی جہانگیر

بچپن میں ہمارے گھر جب بھی دیسی مرغی پکتی تو ہمیں کسی خاص مہمان کے آنے کا اندازہ ہو جاتا تھا کیونکہ ایسا اہتمام تب ہوتا جب کسی نے ہمارا مہمان بننا ہوتا تھا۔ دادا جان دادی اور امی کو تاکید کرتے کہ کھانا اچھا ہو مطلب مرغ کا انتظام ضرور ہو۔ گھر کی دیسی مرغی یا مرغ اور اس میں ایک کلو آلو ڈال کر زیادہ سا شوربہ بنا کر خاص مہمانوں کے لئے بہت ہی خاص دعوت سمجھی جاتی تھی اور میزبان کی جانب سے بہت سارا پیار اور خلوص اس کھانے کو اور بھی مزےدار اور ذائقہ دار بنا دیتا تھا، ایسی دعوت کا مقابلہ آج کل کے فائیو سٹار ہوٹل میں اہتمام سے کئے گئے کھانوں کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔

گزرے زمانے میں گھر والوں کے نصیب میں اپنے گھر کی مرغی کا سالن تو نا ہوتا، بس یہ تو مہمان کی قسمت تھی کہ آ کر دیسی مرغی کے بنے ہوئے شوربہ والے سالن پہ ہاتھ صاف کر لے اور ڈکار بھی نا لے۔

بچپن میں سالن پیش کرنے کا انداز بھی نرالہ تھا، ایک پلیٹ میں دیسی ککڑ/مرغ کے پیسز رکھے جاتے جب کہ دوسرے بڑے کاسہ نما برتن میں بہت سارا شوربہ اور آلو ڈال کر مہمان کے سامنے بڑے بڑے کٹے ہوئے ٹماٹر اور پیاز سے بنے سلاد کے ساتھ پیش کیا جاتا، مہمان بوٹی کو ہا تھ میں لے کر نوالہ شوربے میں ڈبوتا اور دانتوں سے بوٹی کو تَوڑنے کی کوشش کرتا۔ بعض اوقات بوٹی اتنی سخت ہوتی کہ مہمان کے دانت تو دکھنے لگ جاتے پر بوٹی اپنی جگہ سے نا ہلتی اور یہ اسی لیے ہوتا کیونکہ پریشر ککر کی اہمیت سے کوئی واقف نہ تھا لیکن دیگچی میں پکانے سے اس کے ذائقے میں اور لذت آ جاتی۔

مہمان چلے جاتے تو باقی کے سالن میں سے تھوڑا گھر کے مردوں کو دوسرے سالن کے ساتھ پیش کیا جاتا جبکہ باقی بچا ہوا مرغ کا سالن فرج میں رکھا جاتا یا اگر کسی کے گھر فرج نا ہوتا تو پڑوس میں جن کے گھر گرج فرج یا فریزر ہوتا تو امانت کے طور پر تب تک کے لئے رکھا جاتا جب تک کوئی دوسرا مہمان نا آ تا یا گھر میں کوئی بیمار نا پڑ جاتا۔

اس زمانے میں مرغ کا سالن صرف مہمانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ اگر کوئی شخص بیمار ہوتا تب بھی دیسی مرغ ذبح کر کے اس کی یخنی بنائی جاتی اور مریض کو دی جاتی۔

ہمارے گھر شادی کی دعوت دینے تقریباً بچوں، مردوں اور عورتوں سمیت 35 لوگ آئے تھے۔ مجھے یاد ہے جب دادی نے گھر کی مرغیوں میں سے سب سے بڑے اور وزنی مرغ کا انتخاب کیا۔ ہمیں اس کے پیچھے پندرہ منٹ تک دوڑایا اور آخرکار مرغ ہمارے قبضے میں آ گیا۔ اب 35 بندوں کے لئے ایک مرغ ناکافی تھا لیکن اس میں دو کلو آلو اور تقریباً 3 کلو پانی ملانے کے بعد اتنا سالن بن گیا کہ اگر پورے گاؤں کی دعوت بھی ہم کرتے تو آسانی سے وہ دعوت ہو جاتی۔

مرغ کے سالن کی تعریف ہم سالوں تک سنتے رہے اور میری امی اور پھوپھو اس تعریف کو اپنا اعزاز سمجھتی رہیں اور یہ خوشی ان کے چہروں سے ظاہر ہوتی تھی۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ پہلے تو نام میں تبدیلی آ گئی مرغ, ککڑ کی بجائے لوگ چکن لفظ کا استعمال کرنے لگے، مرغ سالن کی جگہ چکن روسٹ، اور چکن بار بی کیو کا زمانہ آ گیا، مہمانوں کو کھانے میں چکن کے ساتھ ساتھ اتنی اور ڈشز پیش کی جاتی ہیں کہ چکن کی اہمیت کم ہو گئی ہے لیکن اب بھی مرغ کو دسترخان کا بادشاہ تصور کیا جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح ککڑ سے چکن میں تبدیلی آئی ہے ایسے ہی لوگوں کے پیار اور محبت میں بھی تبدیلی آ گئی ہے، اب لوگ مہمانوں کے سامنے بہت کچھ رکھتے ہیں لیکن مرغ کے سالن جیسے نہ ذائقہ اور نہ ہی گزرے زمانے جیسی محبت اب کے زمانے میں باقی رہی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button