”کرنے دو خاندان والوں کو باتیں، میں تو اپنی بیٹی کو پڑھاؤں گی”
شمائلہ آفریدی
آدم خیل کے ضلع حسن خیل سب ڈویژن بوڑہ جواکی سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ اسماء آفریدی ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں خاندان کی کم ظرفی اور پسماندہ خیالات کی وجہ سے وہ تعلیم کے زیور سے محروم رہی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنا ان کا خواب تھا، وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے دوسروں تک پہنچانا چاہتی تھیں لیکن ان کا یہ خواب ادورا رہ جاتا ہے۔
گاوں میں پرائمری لیول کے سکول میں پانچویں تک تعلیم دی جاتی تھی لیکن انہیں اس سے بھی محروم رکھا گیا تھا۔اسماء آفریدی کہتی ہیں، ”خاندان میں نہ صرف میں ہی نہیں کئی اور بھی لڑکیوں کو بھی پرائمری لیول تک تعلیم حاصل کرنے سے بھی روکا گیا تھا، کچھ سہلییوں نے تو پانچویں تک تعلیم حاصل کر لی، جو بعد میں ان کیلئے بہت کارآمد بھی ثابت ہوئی تاہم ہمیں گھر کے کام کاج میں لگا دیا گیا کہ عورت کی عزت صرف گھر کے کام کرنے میں ہی ہے۔”
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کے دوران میں اسماء آفریدی نے بتایا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی ایک ایسے خاندان میں کرا دی گئی جس کے تمام مرد اعلی لیول کے تعلیم یافتہ تھے لیکن بدقسمتی سے خاندان کی طرح ان کے سسرال والے بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے دقیانوسی سوچ کے مالک تھے، ”میرا شوہر بھی اعلی تعلیم یافتہ انسان تھا، میں بہت خوش تھی، سوچتی تھی کہ میں تو تعلیم کے زیور سے محروم رہی لیکن میں اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے محروم نہیں رکھوں گی میں ان کو ضرور پڑھاؤں گی۔”
انہوں نے بتایا کہ شادی کرنے کے بعد ان کا سسرال کراچی میں رہائش پذیر ہوا جہاں اردو زبان زیادہ بولی سمجھی جاتی ہے، تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے انہیں اردو زبان سمجھ اآتی نا بولنا، ”جب میں پہلی بار حاملہ ہوئی تو میں چیک اپ کیلئے ڈاکٹر کے ہاں جاتی تھی، اردو زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جبکہ سسرال میں دیگر خواتین کو بھی اردو نہیں آتی تھی، میری طرح وہ بھی ایسے مراحل سے گزرتی تھیں، مرد حضرات تو کام کاج پر چلے جاتے تھے جس کی وجہ سے ہم خواتین ہی چیک اپ کلیئے جاتی تھیں، میں اپنا مسئلہ ڈاکٹر سے بیان کرنے سے کتراتی تھی، ڈاکٹر میری بات نہیں سمجھ سکتی تھی اور میں ڈاکٹر کی بات نہیں سمجھ سکتی تھی، ایسے میں میرے شوہر تمام باتیں ایک کاغذ پر ڈاکٹر کو سمجھانے کیلئے لکھوا دیتے تھے اور ڈاکٹر اپنی باتوں کو سمجھانے کیلئے شوہر کو کاغذ پر لکھوا کر دے دیتی تھیں، میرے لئے یہ ایک کھٹن مرحلہ تھا، میں سوچتی تھی کہ اگر میں نے پرائمری لیول تک تعلیم حاصل کر لی ہوتی تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑتے لیکن میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ میں اپنے بچوں کو ضرور پڑھاؤں گی تاکہ انہیں مستقبل میں میری طرح شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اخر کار وہ لمحہ آ گیا جب اللہ تعالی نے مجھے بیٹی کے نعمت سے نواز دیا۔ جب میری بیٹی پانچ سال کی ہوئی تو میں نے اسے سکول میں داخلہ کروا دیا، جب میرے شوہر اور خاندان کے دیگر مرد حظرات کو علم ہوا تو وہ سیخ پا ہوئے اور مجھے بہت ڈانٹا اور بچی کو سکول سے نکلوانے کا کہا۔ وہ وقت میرے لئے قیامت سے کم نہیں تھا جب میری بیٹی کو ان فرسودہ خیالات کی بنا پر سکول سے نکال دیا گیا کہ لڑکی صرف گھر کی ہے اور بیٹی کو گھر کے کام کاج ہی سکھا دو، ہمارے خاندان میں لڑکی کو نہیں پڑھایا جاتا، میں نے بہت شور شرابہ کیا لیکن میری ایک نہیں چلی اور اخر میں نے بچی کو سکلول سے نکلوا دیا۔”
اسماء کے مطابق وہ بہت بے چین تھیں، وہ بہرصورت اپنی بچی کو پرائمری لیول تک تو پڑھانا چاہتی تھیں۔ ان کی بیٹی بڑی ہو رہی تھی، وہ چھ سال کی ہو گئی تھی جب وہ دوسری دفعہ حاملہ ہوئیں اور ایک بار پھر وہی کھٹن حالات، وہی کاغذ پر باتیں لکھوانے دکھانے کا قصہ، ایسے میں انہوں نے اپنے خاندان سے بغاوت کی ٹھان لی اور بیٹی کو دوبارہ سکول میں داخل کروا دیا، ”خاندان والوں کو معلوم ہوا تو ایک دفعہ پھر مجھے ان کی بہت سی باتیں سننا پڑیں، میں نے اپنے شوہر کو بیٹی کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے سمجھانے کی بہت کوشش کی اور اسے سمجھایا کہ اگر میں نے پڑھا ہوتا تو ایسے کاغذ پر آپ سے باتیں نہ لکھوانا پڑتیں، اگر آج ہم نے اپنی بیٹی کو نہیں پڑھایا تو وہ بھی مستقبل میں میرے جیسے حالات کا سامنا کرے گی۔”
انہوں نے بتایا کہ دوسری دفعہ بھی مجھے اللہ تعالی نے بیٹی کی نعمت سے نوازا۔ میرے شوہر نے گزرے ہوئے حالات اور آنے والے حالات پر غور و فکر کے بعد بالآخر بیٹی کو میٹرک تک بڑھانے کی اجازت دیدی۔ اس فیصلے پر سسرال والے بہت نارآض ہوئے، ”میں اپنے خاندان کی دیگر خواتین اور مرد حضرات دونوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ اپنی بیٹی کو اس دور جدید میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں، بیٹی کو شادی میں سونا جہیز نہ دیں لیکن تعلیم کا زیور ضرور دیں، بیٹی کیلئے تعلیم ایک ایسا زیور ہے جس کی بنا پر وہ آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارتی ہے۔”
اسماء کہتی ہیں، ”خاندان والوں کو میرے فیصلے پر اعتراض ضرور ہے کہ میں نے ان کے فیصلے کے خلاف بغاوت کی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ میرا خاندان ایک دن ضرور میرے اس فیصلے کی اہمیت کو سمجھے گا اور میرے اس اقدام سے خاندان کی دوسری بیٹیوں پر بھی تعلیم کے دروازے کھلیں گے، میری بڑی بیٹی اب دوسری کلاس میں ہے، چھوٹی بیٹی جب پانچ سال کی ہو گی تو اسے بھی پڑھاؤں گی۔”
اسماء آفریدی تمام پشتون خواتین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ ہر ماں اپنے بیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کریں، ”میں لوگوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ جب ہماری سوچ بدلے گی، بیٹی کو بیٹے جیسی عزت و مقام دیا جائے گا، کیونکہ ایک پڑھی لکھی ماں ہی معاشرے کو بہترین تربیت یافتہ، پاک باز اور بہادر انسان دے سکتی ہے، تو ہی ہمارے معاشرے میں انقلاب آئے گا۔”