”بچپن کا خواب تھا، بڑی ہو کر نیوز کاسٹر بنوں گی یا رائٹر”
رانی عندلیب
آج (3 مئی کو) پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔
لفظ صحافت صحیفہ سے نکلا ہے، صحیفہ اللہ رب العزت کی طرف سے انسانیت کی رہنمائی کے لیے بھیجی گئی ایک طرح کی کتاب ہی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مقدس ترین پیشے کے ساتھ آج کیا سلوک کیا جا رہا ہے، اس پیشے سے وابستہ افراد،مرد و خواتین دونوں، کبھی سیاسی مقاصد، کبھی سماجی مسائل تو کبھی دشمنی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس ملک کی بڑی بدقسمتی ہی یہی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ ہماری ایک اور بڑی بدقسمتی یہ بھی ہےہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو بہت کم تر سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ”تھرڈ ورلڈ کنٹری” میں خواتین صحافیوں کو صرف جان کا ہی دھڑکا نہیں لگا رہتا بلکہ ان کی عزت و آبرو بھی داؤ پے لگہ رہتیہے، انہیں معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، انہیں ڈرایا دھمکایا اور طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال خود میرے گھر میں موجود ہے، میری بڑی بہن، جو کہ ایک صحافی رہی ہیں، انہوں نے گورنمنٹ کی جانب سے وکلاء کے لیے کورونا کے حوالے سے فنڈ پر ایک سٹوری کی تھی اور ایک سٹوری بہائی کمیونٹی پر کی تھی جس کی وجہ سے انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس سب کے باوجود، لیکن مجھے پھر بھی صحافت کا شوق ہے، کیسے کب اور کہاں یہ شوق پیدا ہوا، آپ کو یہی بتانے کے لئے یہ ساری تمہید باندھی ہے۔
بچپن سے مجھے لکھنے کا شوق تھا، یہ خواب بھی کہ بڑی ہو کر یا نیوز کاسٹر بنوں گی یا رائٹر، جب میں کلاس ٹو، تھری میں تھی، اس وقت سے میں نے ڈائری لکھنا شروع کی تھی۔ کھیل کھیل میں نیوز ریڈر بن جاتی، بڑی بہن سے نیوز لکھوا کر کمرے کی کھڑکی میں بیٹھ کر اپنی سہیلیوں اور کزنز کو کھڑکی کی دوسری جانب بٹھا کر اپنی خبروں سے ہنسایا کرتی تھی، اس طرح سے اپنا شوق بھی پورا کر لیتی تھی۔ تب مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک دن میرا یہ شوق سید نذیر آفریدی اور طیب آفریدی کے ادارے ٹرائبل نیوز نیٹ ورک (ٹی این این) میں پورا ہو گا۔
میرا تعلق چارسدہ کے گاؤں شبقدر سے ہے لیکن میری پیدائش پشاور میں ہوئی اور ہم پشاور ہی میں رہتے ہیں۔ میں نے اردو میں ماسٹرز کیا ہے، جس کے بعد صحافت سے ایک دفعہ پھر لگاؤ پیدا ہوا۔ چونکہ میری بہن پی ٹی وی سنٹر میں پشتو نیوز کاسٹر تھیں تو میں کبھی کبھی ہنس کر کہتی کہ بچپن سے شوق میرا تھا اور نیوز کاسٹر بن گئیں آپ! اسی طرح میری بہن ٹی این این میں بطور پروڈیوسر بھی کام کرتی تھیں اور یہیں 2017 میں مجھے انٹرن شپ کا موقع ملا جس کے لئے میں سید نذیر اور طیب دونوں صاحبان کی شکرگزار ہوں۔ سچ کہوں تو ان دو مہینوں میں میں نے اتنا کچھ نہیں سیکھا پر بچپن کا ارمان ضرور پورا ہوا۔
پھر کچھ عرصہ بعد ٹی این این نے دوبارہ بلاگ لکھنے کا موقع دیا، لکھنے کی مہارت تو تھی لیکن اسے پالش ٹی این این کے ایڈیٹرز سلمان، افتخار، فہیم اور خالدہ نے ہی کیا ہے۔
پچھلے سال لاک ڈاؤن میں، میں نے ایک بلاگ لکھا تھا، وہ اتنا مشہور ہوا کہ جرمنی کے شہر پراگ کے مشال ریڈیو نے مجھ سے انٹرویو لیا تھا جو میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
صحافت مجھے اس لیے بھی پسند ہے کہ اس میں عزت، پیسہ اور شہرت ہے، یہاں پر ایک مثال میں اپنی بہن کی دینا چاہوں گی۔
ایک دفعہ ٹی این این کی ایک ٹریننگ کے لیے گئی تھی تو وہاں پر جو ہمارے ٹرینر تھے تو وہ مجھے نہیں جانتے تھے کہ میں ناہید جہانگیر کی بہن ہوں، وہاں پر ( مڈل ایسٹ کے مشہور سکیورٹی ٹرینر سید طاہر محمود) آئے تھے، انہوں نے ناہید کی بہت تعریف کی کہ ٹی این این کی ایک رپورٹر ناہید کی سٹوری انہیں بہت پسند آئی تھی۔ میں دل میں بہت خوش ہوئی کہ میری بہن اتنی مشہور ہیں اور میں بھی انہی کی طرح مشہور ہونا چاہتی ہوں۔ مجھے آڈیو اور ویڈیو رپورٹینگ کا بھی بہت شوقہے۔ انشاء اللہ یہ شوق بھی بہت جلد پورا ہو جائے گا۔
آج کل میں میں سٹوری اور بلاگز لکھتی ہوں۔ شکر الحمداللہ میرے ریڈیرز بہت زیادہ ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب میں بھی مشہور شخصیات میں شمار ہو جاؤں گی۔