ہرسال 3 مئی کو اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں آزادی صحافت کے دن کے طور پر منائی جاتی ہے مقصد صرف یہ کہ ریاست کو یاددلایا جائے کہ صحافت اور معلومات تک رسائی دںیا بھر کے بنی نوع انسان کا بنیادی حق ہے اور انہیں اس حق سے ہرگز محروم نہیں کیاجائے گا لیکن کیا واقعی یہی حق پاکستان میں صحافیوں اور شہریوں کو ملتا ہے کہ نہیں ہے؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ شائد اس سے پہلے کبھی پاکستانی میڈیا اور صحافی اتنے بُرے حالات سے گزرے ہو۔
حالیہ دنوں میں صحافت کی آزادی کے بین الاقوامی تنظٰیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز نے سال 2020 کے حوالے جاری کردہ رپورٹ میں صحافت کی آزادی کی درجہ بندی کی ہوئی ہے جس میں پاکستان کو آزادی صحافت کیلئے بدستور تشویشناک ملک قرار دیا گیا ہے۔رپورٹ میں 180 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں صحافت کی آزادی کی رینکنگ سے پاکستان 145ویں نمبر پر موجود ہے۔
اسی طرح اب تک ملنے والے اطلاعات کے مطابق سال 2021 میں صحافیوں کے خلاف قتل، اقدام قتل اور قانونی مقدمات کے واقعات بھی رپورٹ ہوئی ہے۔
پاکستان میں آزادی صحافت پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم پریس فریڈم نیٹ ورک کے مطابق مئی 2020 سے اپریل 2021 تک 6 صحافیوں کو قتل اور 27کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
17 مارچ کو صوبہ سندھ کی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نجی ٹی وی چینل رائیل نیوز کی رپورٹر اجے کمار لالوانی کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا جبکہ اسی طرح
20 اپریل کو پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں دن دیہاڑے معروف صحافی اور پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابقہ چئرمین ابصارعالم کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر زخمی کر دیا۔ ابصار عالم کو اس سے پہلے بھی حکومت اور پاکستانی فوج پر تنقید کی وجہ سے دھمکیاں ملی تھی۔
خیبرپختونخواہ کے ضلع لکی مروت میں صحافی غلام اکبر مروت کے خلاف محکمہ فوڈ کی مبینہ کرپشن بے نقاب کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا جس میں اُنکی 22 اپریل کو عدالت نے ضمانت منظور کرلی جبکہ گزشتہ ماہ 24 کو صوبہ بلوچستان میں آزادی اخبار کے رپورٹر عبدالواحد رئیسانی کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔
صحافیوں کی آواز دبانے کیلئے مختلف حربے عرصہ دراز سے استعمال کئے جاتے ہیں حتی کے خواتین کو صحافیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا، انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ریپ، قتل کرنے اور اغوا کی دھمکیاں ملتی ہے۔ مرد صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں جسے پاکستان کی صحافی ذرائع ابلاغ کے خلاف اور آزادی اظہار کو دبانے کی مذموم کوشش سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں اظہار رائے اور جمہوریت سے متعلق کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ‘میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی’ نے گزشتہ ماہ 2020 کے حوالے سے سالانہ ایک تحقیقی رپورٹ جاری کیا تھا جس میں پاکستان کو 100 میں سے 30 پوائنٹس دئے گئے ہیں اور سال 2020 پاکستان کے صحافیوں اور اظہار رائے کیلئے مشکل سال قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وبا کے ساتھ گزارے جانے والے سال کے دوران پاکستان میں میڈیا سے وابستہ کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 36 صحافیوں پر فرائض کی ادائیگی کے دوران حملہ ہوا اور اس سال 10 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 23 واقعات میں صحافیوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں جب کہ خواتین صحافیوں کو مربوط آن لائن حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
صحافتی تنظیموں کی جانب سے جاری شدہ رپورٹس کی ردعمل میں حکومت پاکستان کی کوئی موقف سامنے نہیں آئی ہے لیکن حکومت پاکستان میں اظہار رائے پرمسلط پابندی سے انکار کرتے ہیں اور دعوہ کرتے ہیں کہ وہ اظہار کی آزادی پر یقین رکھتے اور میڈیا کے خلاف کوئی عزائم نہیں رکھتے مگر دوسری جانب صحافی اور اظہار رائے پر کام کرنے والی تنظیمیں اپنی تحقیقی رپورٹس میں حکومت کی ان دعووں کی نفی کرتے ہیں۔
آزادی صحافت اور صحافیوں کی حقوق کیلئے اواز اُٹھانے والی غیرسرکاری پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے جمعہ کو اپنی ایک تازہ رپورٹ میں تشویش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ اب بلوچستان اور قبائلی اضلاع کی نسبت دارلخلافہ اسلام آباد صحافیوں کیلئے خطرناک جگہ قرار دیا گیا ہے جہان پر صحافیوں پر حملوں اور دیگر جرائم کے خلاف 34 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
پریس فریڈم نے گزشتہ سال اپنی جاری کردہ رپورٹ میں دعوہ کیا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے یکم ستمبر سے 2018 سے 30 جنوری 2020 تک وفاقی کابینہ کے 62 اجلاسوں کی صدارت کی ہے مگر ایک بھی اجلاس میں صحافیوں کی تحفظ اور انکے خلاف واقعات کی روک تھام پر بات نہیں کی ہے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یقیناً صحافی برادری خوفناک صورتحال میں مبتلا ہے، ایک طرف حکومتی اور ریاستی جبر ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ میڈیا کو زیادہ نقصان انہی ادارے میں گھُسے کچھ عناصر نے پہنچایا ہے لیکن اکثریت صحافی اپنی کام دیانتداری اور غیر قانوی مداخلت کے بغیر سرانجام دے رہے ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں کے خلاف مقدمات، قتل، اقدام قتل، اغوا، تشدد اور دھمکیوں کا شرح دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت میں صحافیوں کے خلاف جرائم اور رائے کی اظہار پر پابندی میں اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی نہ صرف عادات و اطوار امریت والی ہے اور میڈیا کی تنقید کو برداشت نہیں کرسکتے بلکہ صحافیوں کے خلاف من گھڑت اور جھوٹے مقدمات بھی درج کر رہی ہے۔
میڈیا ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے جمہوریت مضبوط ہونا تصور کیا جاتا ہے تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں کچھ لوگ ایسے بھی ہے جو اس بات سے متفق ہیں کہ آزاد میڈیا جمہوریت کی مضبوطی کا سبب ہے۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیراطلاعات فواد حسین چوہدری نے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کہا تھا کہ صحافیوں نے ملک و قوم کی خدمت کی ہے اور انہیں حکومت کی طرف سے نہ صرف ذاتی گھر دئے جائیں گے بلکہ ایک قانون کے ذریعے انکی معاشی صورتحال بھی محفوظ بنائیں گے لیکن انہوں نے صحافیوں کی تحفظ کی بات نہیں کی۔
پاکستان میں اس سے پہلے بھی صحافیوں نے اسی طرح کے اعلانات اور دعوے بہت سُنے ہیں لیکن ان دعووں کو کوئی عملی شکل نہیں دی گئی ہے، انسانی حقوق کی وزارت نے گزشتہ سال صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی تحفظ کیلئے ایک بل پیش کیا تھا۔ مجوزہ بل میں ایک بااختیار سات رُکنی کمیٹی تجویز کی گئی تھی جسکی سربراہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی سابق جج مقرر کیا جانا تھا اور یہی کمیشن میڈیا نمائندگان کے خلاف ہراسانی، جبر، تشدد اور دھمکیوں جیسے واقعات کی تحقیقات 14دن کے اندر اندر پابند بنائی گئی تھی لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود بھی اس بل کو قانونی شکل نہیں دی گئی ہے۔
اگر یہ قانون منظور ہوتا اور اس پر صحیح معنوں میں اور خلوص نیت سے عمل ہوتا تو شائد امسال پاکستان میں آزادی صحافت کی انڈیکس رینک بہتر ہوتی۔
پاکستان میں میڈیا یا صحافیوں پر اگر اسی طرح غیر اعلانیہ پابندی برقرار رہی تو پاکستانی عوام مجبوری کی خاطر آزاد اور غیرجانبدار معلومات کیلئے بین الاقوامی یا کسی آزاد میڈیا کا سہارا لیں گے اور پھر یہ غیر ملکی میڈیا پر منخصر ہے کہ وہ کس ایجنڈے کے تحت یا کس قسم کے مواد پھیلانے سے عوام کی ذہن سازی کر رہی ہے اور اسکے عوام کے اذہان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اُسکے نتائج کیا ہونگے؟ اس کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔