”گھر میں تو شیر بن کر پھرتی ہوں لیکن گھر سے باہر کی دنیا الگ ہے”
انیلہ نایاب
انسان خود کو اپنے گھر میں شیر سے زیادہ بہادر اور لومڑی سے زیادہ چالاک سمجھتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ایسا نہیں ہوتا اور یہ تب معلوم ہوتا ہے جب انسان اپنے گھر سے باہر یا اپنے شہر سے دوسرے شہر یا پھر اپنے ملک سے دوسرے ملک چلا جائے۔
ایسا میرے ساتھ تب ہوا جب میں پہلی بار گھر سے کیا اپنے ملک سے باہر دوسرے ملک (سعودیہ) گئی، چونکہ میں گھر میں سب سے چھوٹی ہوں، کبھی بھی امی کے بغیر گھر سے باہر نہیں گئی۔
میں اپنی بہن اور بھائی کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لئے گئی تھی۔ وہ دونوں مجھ سے تو بڑے ہیں لیکن گھر میں چھوٹے ہیں۔
گھر میں تو میں بہت شیر بنتی ہوں لیکن جب گھر سے باہر گئی تب پتہ چلا کہ گھر اور باہر کے ماحول میں فرق ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ کی طرف سے اس کے گھر کی زیارت کا بلاوا تھا تو خوشی کے مارے دو دن پہلے سے ہی میری نیند اڑ چکی تھی۔
16 اپریل کی شام ہم عمرے کی ادائیگی کے لیے اللہ کے گھر کے لئے روانہ ہوئے، سفر کے دوران بھی نیند نہیں آئی، 17 اپریل کو ہم مکہ پہنچے، صبح کے پانچ بجے ہوٹل میں سامان رکھ کر عمرہ ادا کرنے گئے، حرم شریف کو دیکھنے کی خوشی اتنی تھی کہ میرا دھیان کسی چیز کی طرف نہیں گیا۔
حرم شریف میں داخل ہوئے تو آنکھیں بند کر کے دعائیں مانگ رہے تھے اور جیسے ہی کعبہ کے نزدیک پہنچ کر آنکھیں کھولیں تو سامنے انتہائی وسیع و عریض مطاف تھا جس میں لوگ طواف کر رہے تھے۔ ایسا دلچسپ اور دل کو چھو لینے والا منظر بچپن میں کتابوں میں پڑھا تھا، آج میں اس کے سامنے کھڑی تھی، یہ منظر میرے لیے خواب سے کم نہ تھا
اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے عمرہ ادا کیا۔
میری خواہش تھی کہ کعبہ کو ہاتھ لگا کر دعا مانگوں۔ بعد میں، میں اپنی بہن کے ساتھ گئی اور بہت کوشش کے بعد ہم کامیاب ہوئے۔ چونکہ میرے بھائی نے احرام باندھا تھا اور اس حالت میں خانہ کعبہ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے تو وہ دور کھڑے تھے۔
میں نے کعبہ پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر کے دعائیں مانگیں، جب آنکھیں کھولیں تو رانی نہیں تھی اور نہ ہی بھائی تھا۔
اتنی بھیڑ تھی کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، بس ڈھونڈنے لگی، ڈھونڈتے ڈھونڈتے ظہر کا وقت ہو گیا اور نماز پڑھنے گئی۔ وہاں ترکی کی چند عورتیں تھیں، اپنی زبان میں کچھ کہا لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی۔ بس پھر کیا تھا غصہ سے اشارہ کیا کہ یہاں سے اٹھو۔ زار و قطار آنسو میری آنکھوں سے گرنے لگے۔ دوسری جگہ جا کر نماز پڑھی اور دعا کی کہ اپنوں سے مل لوں کیونکہ اتنی بھیڑ میں اپنوں کا گم ہو جانا اور ان کا دوبارہ ملنا بہت مشکل تھا۔ مجھے تو ہوٹل کا پتہ بھی صحیح طرح سے معلوم نہیں تھا۔
بھائی اور بہن کو دوبارہ ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھگ گئی اور تیز دھوپ کی وجہ سے سر میں درد شروع ہو گیا، حرم شریف سے باہر نکل کر سب سے پوچھتی رہی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا، ذہن میں آیا کہ یہاں کے مقامی لوگوں سے پوچھتی ہوں۔ ایک ہوٹل کے سیکورٹی گارڈ سے اپنے ہوٹل کا پوچھا، اس نے مجھے بٹھایا اور میرے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھما دی۔ میں اس آدمی کو دیکھ کر ڈر کر اٹھی اور رونا شروع کر دیا۔
باہر نکلی تو بہت سے لوگ میرے اردگرد جمع ہو گئے، ان میں ایک آنٹی تھی جن کا تعلق سندھ کے شہر حیدرآباد سے تھا۔ مجھے گلے لگا کر کہا کہ تب تک عمرہ نہیں کروں گی جب تک آپ کو آپ کے بہن بھائی سے نا ملواؤں۔ آج بھی میری دعا میں وہ آنٹی یاد رہتی ہے۔
آنٹی نے کہا بیٹا اپنے بھائی کو کال کرو، میرے بھائی کا فون تو میری پرس میں تھا اور نہ ہی میرے فون میں بھائی نے سعودیہ کی سم لگائی تھی کیونکہ ہمارا ارادہ سب سے پہلے عمرے کا تھا اور بعد میں فون میں سم لگا کر گھر والوں کو اطلاع دینا تھی۔
انہوں نے آخر کار مجھے میرے ہوٹل تک پہنچایا، جو ہوٹل کا کارڈ ہمیں ملا تھا اس پر اتلالا مکہ لکھا تھا اور ہوٹل پر فندق سندھ سانی لکھا تھا لیکن میں نے باہر سے پہچان لیا۔ ہم ہوٹل کے اندر گئے تو آنٹی نے سب سے پہلے اس ہوٹل والوں کو خوب سنائی کے ایک نام رکھو اپنے ہوٹل کا۔
اتنے میں دیکھا کہ بھائی اور بہن بھی آ گئے۔ میں بھائی کے گلے لگ کر خوب روئی اور یاد آیا کہ گھر میں تو شیر بن کر پھرتی ہوں لیکن گھر سے باہر کی دنیا الگ ہے۔”