بلاگز

یوم مزدور پھر گزر گیا، مزدور کو کانوں کان خبر نا ہوئی

عبدالستار

یکم مئی یوم مزدور گزرے دنوں کی طرح اس مرتبہ بھی گزر گیا اور مزدوروں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی، مجھے بھی اس دن کے حوالے سے دلچسپی تھی تو مردان میں ایک آٹے کی چکی پر کام کرنے والے مزدور سے جب میں نے پوچھا کہ یوم مزدور منایا کہ نہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ کب ہوتا ہے اور کس لئے منایا جاتا ہے؟ میں نے اسے کہا کہ یہ دن مزدوروں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کی جانب سے منایا جاتا ہے اور اس دن کو مزدوروں میں شعور اجاگر کرنے اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے سلسلے میں پوری دنیا میں تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں بھی یکم مئی یوم مزدور منایا جاتا ہے اور پورے ملک میں چھٹی بھی ہوتی ہے تو آٹے کی چکی پر کام کرنے والے مزدور نے کہا کہ سرکاری دفاتر تو بند ہوں گے لیکن نہ ہماری چھٹی ہوتی ہے اور نہ کسی مزدور تنظیم نے کسی بات سے ابھی تک ہمیں آگاہ کیا ہے اور نہ ہمیں کسی قسم کا کوئی ریلیف ملا ہے۔

مزدوروں کے حقوق پر کام کرنے والی اکثرغیرسرکاری تنظیمیں دوسرے تنظیموں کی طرح کاغذی کاروائی تک محدود ہوتی ہیں اور مزدوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے کے نام پر مختلف ڈونرز سے فنڈز لیتی ہیں لیکن حقیقت کاغذی کارروائی کے برعکس ہوتی ہے۔

1886 کے شگاگو انقلاب کے بعد مزدوروں کو ٹائم فریم تو مل گیا کہ وہ آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام کریں گے لیکن سرمایہ دار فیکٹری مالکان اداروں کے ساتھ مل کر مزدوروں کو حقوق نہیں دے رہے۔

اس حوالے سے مردان میں مزدوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم لیبر ایجوکیشن آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر حسن حساس نے بتایا کہ ضلع پشاور کے بعد ضلع مردان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے زیادہ مزدور کام کر رہے ہیں لیکن کارخانہ داراور سرمایہ دار طبقے کے اثررسوخ کی وجہ سےبہت کم مزدور رجسٹرڈ ہیں، ان میں 325 زنانہ فیکٹریوں اور 250 کے قریب زنانہ پرائیویٹ سکولوں اور دفاتروں میں کام کر رہی ہیں جس کے ساتھ ضلع مردان میں رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد 11700 بتائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مردان میں 7300 غیرمنظم اور غیر رجسٹرڈ مزدور ہیں جنہیں حقوق نہیں مل رہے، جو فیکرٹریوں، دوکانوں میں کام کرنے والے، کان کن، گھروں میں دتسکاری اور دیگر کام کرنے والے شامل ہیں، اینٹ بنانے والے بھٹہ خشت بھی شامل ہیں جبکہ غیررجسٹرڈزنانہ مزدوروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

حسن حساس نے کہا کہ چائلڈ لیبر کا بہت مسئلہ ہے کیونکہ چائلڈ لیبر جس ماحول میں کام کر رہے ہیں وہ نشے کی طرف مائل ہو رہے ہیں جبکہ جسم فروشی میں بھی ملوث پائے جا رہے ہیں۔ مردان میں چائلڈ لیبر کی حالت بہت گھمبیر ہے جس پر اعلیٰ حکام بھی چشم پوشی کر رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے بنایا گیا چائلڈ پروٹیکشن یونٹ بھی بند کر دیا گیا ہے اور کسی چائلڈ لیبر کو نازیبا حرکت کرنے پر گرفتار کیا جائے تو اس کے لئے کوئی شلٹرہوم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کارخانوں، پرائیوٹ سکولوں اور دوسری جہگوں جہاں پر مزدور کام کر رہا ہو اسے یونین سازی کی اجازت نہیں  کیونکہ سی بی اوز اور یونینز بننے کے بعد مزدور اپنے حقوق کے لئے منظم ہوں گے جس سے سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کو نقصان ہوتا ہے۔

لیبر کے حقوق پر کام کرنے والےحسن حساس نے بتایا کہ ضلع مردان میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کردار بھی صفر ہے اور محکمہ بھی سرمایہ دار اور کارخانہ دار کے لئے کام کر رہا ہے اور مزدور کے حقوق نہ کوئی مان رہا ہے اور نہ پاسداری کی جاتی ہے جبکہ اہلکاروں کو مزدوروں کے حقوق اور قانون کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مزدوروں کی نام پر بنائی گئی لیبر کالونیوں میں بھی مزدوروں کی بجائے دوسرے سرکاری اہلکاروں اور باثر لوگوں نے گھروں پر قبضہ کر رکھا ہے اور مزدو کے حق پر قابض ہیں جبکہ محکمہ مزدور میں ویلفیئر بورڈ بھی کارخانہ دار مافیا کے قبضے میں ہے اور اس میں نئے لیبر کو رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا اور پرانے لیبر کو حقوق نہیں دیتے جبکہ مزدوروں کو سوشل سیکورٹی کارڈ اور ای یو بی آئی بھی بہت مشکل سے ملتے ہیں۔ حکومت بھی اس پر خاموش ہے کیونکہ حکمران جماعتوں میں سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کا اثر رسوخ ہوتا ہے جو مزدوروں کے حقوق کو غصب کر دیتے ہیں۔

کام کرنے والی جہگوں میں جنسی ہراسمنٹ کے کیسز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کے لئے قانون سازی تو 2010 میں ہوئی ہے لیکن اطلاق ابھی تک نہیں ہوا جس سے خواتین ورکرز کو معاشی مشکلات کی وجہ سے جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button