خواتین کے حقوق اور ہمارے رویے
عربہ
کئی صدیوں سے چلتا آرہا ہے کہ عورت کو اپنا وہ مقام وہ حق نہیں دیا جاتا جو اس کا حق ہوتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین ہمیشہ اپنے حقوق سے محروم رہتی ہیں۔ جب بھی کسی کے گھر لڑکا پیدا ہوتاہے تو گھر میں سب لوگ بہت ساری خوشیاں مناتے ہیں جیسے کے کوئی عید ہو اور جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو سارے گھر میں سناٹا سا چاجاتا ہے اور کسی کے چہرے پر بھی خوشی دکھائی نہیں دیتی۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ اس کی کیا ضرورت تھی اس کی جگہ لڑکا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا اس طرح لڑکی کے پیدا ہونے پر کوئی بھی اظہار مسرت نہیں کرتا حالانکہ دین اسلام میں لڑکی کی پیدائش کو رحمت قرار دیا گیا ہے۔
یہاں پر لڑکیوں کو وہ حق نہیں دیا جاتا ہے جو لڑکوں کو دیا جاتا ہے، جب لڑکی بڑی بھی ہو جائے تو بھی اس کا حق اس سے چھین لیا جاتا ہے اور اس کے حق کو کوئی مانتا ہی نہیں ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جب وہ بڑی ہو جائے تو ماں باپ بھائی یا سسر شوہر سب اس پر رعب ڈالتے ہیں اور اس پر حکم چلاتے ہے، اسی طرح خاندان کے لوگ بھی انہیں وہ حق نہیں دیتے جس کی وہ حقدار ہوتی ہے۔
اکثر ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ ماں باپ لڑکوں کو پرائیویٹ سکول میں پڑھاتے ہیں، اُنکے لئے الگ ٹیوشنز رکھتے ہیں جبکہ اسکے برعکس لڑکیوں کو سرکاری سکول میں پڑھاتے ہیں نہ اُسکے لئے کوئی خاص ٹیوشن رکھا جاتا ہے بلکہ بیشتر لوگ تو لڑکیوں کو تعلیم بھی نہیں دلواتے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ویسے بھی کل کسی اور کے گھر جائے گی اور ساتھ میں یہ بھی کہا جاتا ہے اس کو گھر کے کام کاج سیکھنے چاہئے۔
جب گھر میں یا خاندان میں کسی رشتہ دار کے گھر میں کوئی تقریب ہو تو لڑکے کو اس کی مرضی کے پیسے دے کر ان کو یہ کہتے ہیں جاو بیٹا جو لینا ہے ابنے مرضی سے لے لو اور جب لڑکی کی باری آتی ہے تو ان کو کہا جاتا ہے کہ تمھیں پیسوں کیا ضرورت ہے تم تو لڑکی ہو اور اس طرح اگر زندگی اور مستقبل کے فیصلوں پر بات کی جائے تو جب لڑکا شادی کرنا چاہے تو ماں باپ اس کی شادی وہاں پر کرنا چاہتے ہیں جہاں پر اس کی مرضی ہو، جہاں اس کی خوش ہوتی ہے اور اگر لڑکی کی شادی ہو تو بنا پوچھے ان کی بات پکی کر دیتے ہیں، اگر وہ اس فیصلے سے خوش نہ ہو یاانکار کرے تو ان کی انکار کو کوئی توجہ ننیں دیتا اور اس کو یہ کہہ کر خاموش کرادیا جاتا ہے کہ کیا اب خاندان کا نام بدنام کروگی پھر چاہے لڑکی خوش ہو یا نا نہ مجبورا چپ ہوجاتی ہے اور اپنی ساری زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ گزار دیتی ہے جس کے ساتھ وہ رہنا نہیں چاہتی۔
اسی طرح اگر گھر میں کسی اہم فیصلے پر بات ہو رہی ہو تو اکثر بیٹوں کو اپنے درمیان بٹھایا جاتا ہے جس میں اُن سے ہرقسم کی مشاوروت کی جاتی ہے اور پھر انکی بات کو اہمیت بھی دی جاتی ہے جبکہ اسکے برعکس لڑکیوں کو یہ حق حاصل نہیں۔ لڑکیاں بچاری تو چاہے ماں باپ کے گھر ہو یا سسر کے گھر ہو تو پوری ایمانداری کہ ساتھ زندگی گزارتی ہیں اور اگر شوہر کا گھر ہو خوش نہ بھی ہو تو خاندان کی عزت کی خاطر اپنی پوری زندگی گزار دیتی ہے اور پورے دل و جان سے اپنے گھر میں دل لگا کر اپنے بچوں اور گھر کے کاموں سنھبالتی ہے۔
پھر جب یہی خاتون اپنے ماں باپ کے گھر سے اپنے شوہر کے گھر پر چلی جائیں تو وہاں پر بھی پوری زندگی اپنی شوہر کی تابعداری اور اطاعت میں گزارتی ہے اور ان کے ہر اچھے برے فصیلوں میں ان کا ساتھ دیتی ہے۔ مرد عورت کے معمولی سی غلطیوں پر عورت کو چند لمحوں میں اپنے فیصلے سناتے ہیں اور اسکی ساری زندگی کی محنت اور دل میں رکھی ہوئی محبت پر پانی پھیر دی جاتی ہے۔
اسلئے اگر ان تمام معاملات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کو وہ حقوق نہیں دیئے جاتے جو اس کو دین اسلام اور قانون دیتا ہے لیکن یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دو پہئے ہیں، دونوں کے بغیر زندگی کی گاڑی صحیح نہیں چل سکتی، اسی طرح معاشرے کی ترقی بھی خواتین کے بغیر ممکن نہیں، اسلام اور آئین پاکستان میں وضع شُدہ اصولوں کے تحت معاشرے کی ترقی میں خواتین کو آگے لانا وقت کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ ترقی کرسکے۔