کیا تعلیمی اداروں کی بندش سے مسائل حل ہو جائیں گے؟
مریم انم
کورونا وبا کی تیسری لہر نے پاکستان میں نہ صرف کئی قیمتیں جانیں نگل لی بلکہ نظام زندگی کو بریک لگا لیا، بین الاقوامی وبا کوویڈ 19 کے بڑھتے ہوئے کیسز اور حالات کی حساسیت کو مدنظر رکھ کر حکومت نے عید تک آٹھویں تک تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی کی زیرصدارت چاروں صوبوں کے وزرائے تعلیم کے اجلاس میں ملک بھر میں کورونا کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جبکہ متاثرہ اضلاع میں میٹرک اور انٹر کے طلبا کے لئے تعلیمی ادارے کھولے گئے ہیں۔۔
گزشتہ ایک سال سے کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی ادارے جزوی طور پر بند رہے جس سے طلباء کا شدید نقصان ہوا۔
پاکستان میں بچوں کی تعلیم کےحقوق پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کے مطابق پاکستان میں کورونا وبا کی وجہ سے نولاکھ بچوں نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا جن میں بیشتر بچے اپنے خاندان کی کفالت کیلئے محنت مزدوری پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اگر پم ان ممالک کو دیکھے جہاں کورونا وبا کی بہت شدت رہی ہے جیسے چائنہ, اٹلی اور برطانیہ وغیرہ، تو ان ممالک نےکورونا کی شدت کیساتھ بھی تعلیمی ادارے بند نہیں کئے اور اپنے بچوں کو بھرپور احتیاط کے ساتھ تعلیم دینے کا کام جاری رکھا۔
ترقی یافتہ ممالک کی یہ خاصیت ہے کہ حالات جیسے بھی ہو وہ تعلیم کے راستے بند کرنے نہیں دیتے۔
پڑوسی ملک چائنہ نے انتہائی سخت حالات میں بھی تعلیم کے دروازے بند نہیں کئے لیکن انتہائی ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ بچوں کو تعلیم دلوائی۔ یوں انکا تعلیمی نقصان ہونے کی بجاۓ انھوں نےان سخت حالات کامقابلہ بھی کیا،حالات کو کنٹرول بھی کیا اور آج وہ ان ممالک میں شمار ہورہا ہے جنہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں کورونا وبا پر قابو پالیا۔
دوسری طرف اگر ہم دیکھےتو ہم نے پورا سال تعلیمی ادارے بند کئے بچوں کو تعلیمی میدان میں ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا ہے کیونکہ جب بھی کوئ قوم جب اپنے اوپر تعلیم کے دروازے بند کر دیتی ہیں تو وہ قوم ترقی کے میدان میں کئی دہائیوں پیچھے جا سکتی ہے۔
وہ بچے جو کسی بھی طرح کی تعلیمی سہولیات یا آن لائن ایجوکیشن تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے تو ان کیلۓ موجودہ حالات تعلیمی لحاظ سے کسی غذاب سے کم نہیں ہے۔
اب حکومت کا تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان ان سب بچوں کیلۓ ایک نعمت سے کم نہیں جو میٹرک یا انٹر میڈیٹ کی امتحان کیلۓ سکول اور کالج کے علاوہ اور کوئی زریعہ نہیں دیکھ رہے تھے جہاں انکی تیاری ہو سکے۔ یہ وہ بچے ہیں جو تعلیم کا انتہائی شوق رکھتے ہوئے اپنے خراب معاشی حالات کی وجہ سے یہ شوق سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے پورا کر رہے تھے۔
اب تعلیمی ادارے اگر چہ ادارے امتحانات کیلۓ کھول دیئے گئے ہیں لیکن ان بچوں کی ایک امید بندھ گئ ہے کہ اس بار حکومت دوبارہ تعلیمی ادارے بند نہیں کریں گے اور یوں ان کا تعلیمی سلسلہ دوبارہ بحال ہوجائے گا۔
حکومت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں حالات جیسے بھی ہو، ایسے میں تعلیمی اداروں کی بندش میں مسائل کا حل ڈھونڈنے سے گریز کیا جائے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی کار دارومدار اسکی تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہماری قوم کی یہ ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ آزادی کی 74
سال گزرنے کے باوجود بھی ہمارے تعلیمی ادارے اس لیول تک نہیں پہنچ سکیں ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کی تعلیمی اداروں کا ہے یہاں جب بھی حالات تھوڑے سے خراب ہو سارہ نزلہ تعلیم پر گرتا ہے کھبی تعلیمی اداروں کو دھشتگردی کے نام پر ٹارگٹ کیا جاتا ھے اور کبھی کرونا وائرس، کھبی مزدور ڈے،کبھی اقبال ڈے اور کبھی کشمیر ڈے گو کہ کئی دن ہم کسی نہ کسی وجہ سے تعلیمی اداروں کو بند کردیتے ہیں جس کا براہ راست منفی اثر بچوں کی تعلیم پر پڑتا ہے۔
خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ سال دو سال بچوں اور پاکستان کے مستقبل کیلئے نیک شگون نہیں ہوگا خاکم بدہن یہ قوم کو ایسی تاریکیوں میں دھکیلے گا جہاں سے نکلنے میں ہمیں شاید سالوں لگ جائے اور ھم دوسرے قوموں کی نسبت اتنے پیچھے چلے جاۓ جھاں ھمارے لۓ اپنی شناخت برقرار رکھنا بھی مشکل ھو جاۓ۔
اگر بازاریں کھلی رکھ کر احتیاطی تدابیر اپنائی جاسکتی ہیں اور بڑے لوگوں کی شادیوں میں ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہو تو کورونا نہیں پھیلتا لیکن اگر پھیلتا ہے تو تعلیمی اداروں کے کھولنے سے پھیلتا ہے۔
اگر ھم تاریخ کی اوراق پلٹ کر دیکھے تو یہ معلوم ہو جاۓگا کہ جب تک مسلمانوں میں علم حاصل کرنے کی تمنا رہی تھی اور حکمرانوں نے علم کے شوقین طلباء کو ھر سھولت دینے کی کوشیش کی وہی طلباء اس زمانے کے جئد سائنسدان اور عالم ٹھہرے اور جب جابر بادشاہ چنگیز خان نے بغداد پر حملہ کرکے اس وقت کی سب سے بڑی لائبریری کو دریاۓ دجلہ میں پھینک دیا تو وہاں سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوا اسلۓ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ حالات جیسے بھی ہو تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی بجائے وہاں پر بہتر احتیاطی تدابیر سے مسائل کاحل نکالیں ورنہ تھوڑی سی حاصل کی ہوئی ترقی بھی کھو سکتے ہیں۔