بلاگز

ادویات مہنگی، ”حکومت فیصلہ پہلے کرتی ہے سوچتی بعد میں ہے”

عبدالستار

پنجاب حکومت کی جانب سے لاہور میں میو ہسپتال کے ڈاکٹروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ مریضوں کو علاج کے لئے دوائی لکھنے میں میڈیسن بنانے والی کمپنی نام کی بجائے فارمولا لکھا جائے، اس خبر کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کافی ستائش کی گئی لیکن حسب عادت ہم کسی خبر یا سرکاری حکم نامہ کو سمجھنے سے پہلے اس پر تنقید یا اس کے حق میں باتیں شروع کر دیتے ہیں، لیکن کیا ڈاکٹر دوائی کا فارمولا لکھ کر مریض دوائی میڈیکل سٹور والے کی مرضی سے لیں گے؟

اس حوالے سے جب ایک سینئر ڈاکٹر شوکت علی سے جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ حکومت ہمیشہ فیصلہ پہلے کرتی ہے اور اس کے حوالے سے سوچتی بعد میں ہے، انہوں نے کہا کہ تب یہ اقدام اچھا اقدام ہو گا کہ ہسپتالوں میں تمام میڈیسن دستیاب ہو اور کسی مریض کو ہسپتال سے باہر کسی دوائی کی ضرورت نہ ہو اور ہسپتال میں ضرورت پوری ہو سکے لیکن پاکستان میں کسی بھی ہسپتال میں یہ ممکن ہی نہیں۔ اگر ہسپتال کے سٹور میں تمام دوائی موجود ہو تو ڈاکٹر صرف فارمولا لکھے گا، اسے پتہ ہو گا کہ ہسپتال میں یہ دوائی مجود ہے لیکن دوائی سرکاری سٹور میں موجود نہ ہو تو پھر مریض کو باہر میڈیسن سٹور سے دوائی لینا پڑے گی اور اس کے لئے دوائی کی کمپنی کا دیا گیا نام لکھنا پڑے گا ورنہ پھر مریض میڈیکل سٹور والے کے رحم کرم پر ہو گا اور وہ جو چاہے اس کمپنی کی دوائی دے گا۔

بدقسمتی سے پاکستان کی ہیلتھ منسٹری نے ڈرگ ریگولیرٹری اتھارٹی کو اتنا آزاد کر کے چھوڑ دیا ہے کہ وہ جس کو جو چاہے (فارماسوٹیکل کو) ان کی مرضی کے مطابق دوائی کی قیمت مقرر کرے جس کی وجہ سے میڈیسن مارکیٹ میں اس وقت انسانی دوائیوں کے کئی سٹیندرڈ پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ملک کے اندر میڈیسن کمپنیاں مختلف قسم اور سٹائل کے ساتھ مارکیٹینگ کرتی ہیں اور وہ مارکیٹ میں اپنی سیل کو بڑھاتی ہیں جس کے لئے وہ نت نئے طریقے ایجاد کرتی ہیں جس میں ڈاکٹ رحضرات پر سرمایہ کاری،جس میں ڈاکٹرز کو باہر ممالک جن میں یورپ، امریکہ، وسظی ایشیا کی سیر کرانا یا سیمینار کے نام پر ڈاکٹرز کو ٹرپ دینے کا ایک طریقہ شامل ہے جبکہ کچھ کمپنیاں اور میڈیسن پروموٹرز تو ڈاکٹرز سے براہ راست فی پیک یا فی نسخہ ڈیل کر کے ایڈوانس کیش پیمنٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو مہنگے داموں میڈیسن خریدنا پڑتا ہے جبکہ چند ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنا ایک معیار مقرر کر کے مہنگے داموں میڈیسن فروخت کرتی ہیں۔

ملک میں دوائیوں پر نظررکھنے والی ادارہ ڈریپ نے تو فارماسوٹیکل کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جس کی وجہ سے دوائی بننے کے بعد اس پر منظور شدہ قیمت لکھی ہوتی ہے لیکن مارکیٹ میں بہت کم قیمت پر ملتی ہے جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہوتے ہیں کہ کون سی دوائی لیں، کم قیمت والی یا زیادہ قیمت والی کیونکہ دونوں کو ہیلتھ ریگولرٹی اتھارٹی نے منظوری دی ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں ایک پاکستانی ڈاکٹر عبداللہ جو کہ آج کل آئرلینڈ کے ایک سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی سرنجام دے رہا ہے اس نے بتایا کہ ہسپتالوں میں انٹرنیشنل معیار یہی ہے کہ وہ مریض کو میڈیسن کا جنرک نام لکھے گا اور ہسپتال میں موجود فارمسسٹ کی رائے کے بعد ہسپتال کی فارمیسی سے وہ دوائی مریض کو ملے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہسپتال یا میڈیکل سنٹرز بلک یعنی یک مشت کسی دوائی تیار کرنے والی کمپنی سے دوائیاں خریدتے ہیں اور پھر ڈاکٹر صرف فارمولا لکھ کر مریض کو دوائی ملتی ہے کیونکہ وہاں پر کمپنی کے نام سے دوائی لکھنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ وہاں پر فارموسوٹیکل کمپنیوں کی مارکیٹنگ کا طریقہ بھی معیاری ہے اور انسانی دوائیوں پر کسی قسم کی بارگینگ یا ڈیلینگ نہیں ہو سکتی۔

مختلف حکومتوں نے مختلف وقتوں میں بیانات حد تک کوششیں کی ہیں کہ انسانی ادویات بنانے والے کمپنیوں کو کنٹرول کیا جائے لیکن ابھی تک یہ ممکن ہی نہیں ہوا اور اب تو عوام کو اتنی مشکلات کا سامنا ہے کہ یہ بھی یہ تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کون سی دوائی اصلی ہے اور کون سی نقلی جبکہ اکثر دوائیوں کی ایک فارمولے کے ساتھ قیمتوں میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ بندے کو فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس کمپنی کی دوائی خریدے کیونکہ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق پاکستان میں اکثریتی فارماسوٹیکل کمپنیوں کو خام مال یا تو چائینہ اور انڈیا سے آتا ہے لیکن ادویہ ساز کمپنیوں نے اپنی اپنی قیمت ڈریپ سے منظور کر کے لگائی ہے اور ہر اک اپنی دوائی کو اصلی ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ کچھ کمپنیاں بہت کم قیمت پر ادویات تیار کرتی ہیں اور اس کے باوجود کہ اس پر سرکاری منظور شدہ مہنگی قیمت لکھی ہوتی ہے لیکن مارکیٹ میں کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں جس سے عوام تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں، اب حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جس طریقے سے کچھ ماہ سے مسلسل انسانی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا اس طرح ان ادویات کے معیار کو جانچ کر قیمت مقرر کرنا چاہیے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button