بلاگز

‘اللہ پوچھے ! بھائی اپنی جان پر ہی تھوڑا ترس کھالو’

سمن خلیل

یہ ایک حقیت ہے کہ موبائل فون ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے  اور آج کل کے دور میں موبائل فون کسی بھی نعمت سے کم نہیں  ہے۔ مجھے  یاد ہے کہ جب موبائل فون اتنا عام نہیں تھا  اور جن لوگوں کے پاس  موبائل  فون ہوتا  وہ اس کی نمائش کرتے تھے  تاہم اب ایسا وقت آگیا ہے کہ موبائل کے بغیر ایک پل گزرنا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔

بڑے کہتے ہیں جب موبائل فون نہیں ہوتے تھے تب لوگ  صبح  سویرے  ٹائم  پر اٹھتے تھے وقت پر نماز ادا کرتے تھے، تلاوت کرتے تھے اور زندگی کےباقی کاموں  وقت پر مصرف ہوجاتے تھے لیکن موبائل کے آجانے سے ہم راتوں کو جاگتے ہیں صبح دس بجے سے پہلے تو اٹھتے نہیں ۔ یہ بات درست ہے کہ موبائل وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت بنتا جا رہا  ہے لیكن اس كا ہر گز یہ مطلب نہیں كہ ہم  چھوٹے بچوں کے ہاتھوں  میں موبائل تھما دیں. آجکل کی مائیں جب بچوں کو روتا ہوا دیکھ لے تو سب سے پہلے ان کے پاس موبائل وہ واحد ذریعہ  ہوتا ہے جس سے وہ بچوں کو چپ کروا سکتی ہیں   ۔

میں مانتی ہوں کہ موبائل فون لوگوں کے درمیان ایک رابطے کا ذریعہ ہے ہم میلوں دور بیٹھے انسان سے نہ صرف بات کر سکتے ہیں بلکہ انہیں دیکھ بھی سکتے ہیں- لیكن  مجھے لگتا ہے كہ موبائل نے ہمیں اپنوں سے دور کر دیا ہے جیسا کہ ہمارے والدین۔ ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ موبائل کی دنیا سے نکل کر دو گھڑی اپنے والدین کے ساتھ دکھ سکھ کر لے ۔ ہم میلوں دور بیٹھے انسانوں سے تو ہر روز بات چیت کرتے ہیں,انہیں دیکھتے ہیں لیکن سامنے بیٹھے انسان کو بری طرح نظرانداز کرتے ہیں آہستہ آہستہ ہم اپنوں سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ کہنے کو ہمارے پاس بے شمار وقت ہوتا ہے مگر بات کرنے کے دو منٹ تک نہیں ۔

آج کل کا المیہ یہ ہے کہ ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ہم ایک دوسرے کو وقت نہیں دے پاتے، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ سوشل میڈیا ہے جس پر ہر عمر کا بندہ ہر وقت مصروف نظر آتا ہے۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال نے چھوٹے بڑے بزرگ سب کا فرق ختم کر دیا ہے۔ کیوں کہ سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

اب وہ زمانے گئے، جب کسی رشتے دار سے ملنے جایا کرتے تھے، بیماروں کی تیمارداری  کیا کرتے تھے ہمسائیوں کے دکھ درد کا خیال کیا کرتے تھے۔ اب تو یہ احوال ہے کہ سوشل میڈیا پر سٹیٹس ڈال دیا جاتا ہے، وہیں سے معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ حتی کہ فوتگی کی اطلاع اور تفصیلات بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی جاتی ہیں۔ گھنٹوں موبائل پر مختلف گیم کھیلی جا تی ہیں اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کیا جا تا ہے۔ ہم اپنا قیمتی وقت وہاں ضائع کرتے ہیں جس کا بظاہر کوئی حاصل مقصد نہیں ہے  ہمیں اس موبائل فون اور سوشل میڈیا کی اس قدر عادت ہو گئی ہے کہ ہم نا صرف اپنا قیمتی وقت بلکہ اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتے۔

کچھ دن پہلے ایک صاحب کو دیکھا، جو ایک ہاتھ سے موبائل فون پکڑ کر بات کر رہے تھے اور دوسرے ہاتھ سے موٹر سائیکل چلا رہے تھے۔ اب کال بھی کوئی ایمر جنسی کی نہیں لگ رہی تھی۔ کیوں کہ چہرے پر مسکراہٹ بکھر رہی تھی اور قہقہے تھے، جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

اللہ پوچھے کہ بھائی اپنی جان پر ہی تھوڑا ترس کھالو، لیکن نہیں ہمیں پروا ہی نہیں۔ اس دوڑ میں خواتین بھی کسی طور پر پیچھے نہیں ہیں۔ اب دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ خواتین بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے آتی ہیں اس دوران میں موبائل فون پر بات کرتے ہوئے ڈرائیونگ کرتی ہیں، یا بات کرتے کرتے غلط گاڑی کھڑی کر کے چلی جاتی ہیں اور عوام کو ٹریفک کی تکلیف اٹھانی پڑھتی ہے ۔

ٹریفک کے قوانین پر عمل کروانے کے لئے سختی کی ضرورت ہے، جرمانہ کی رقم میں اضافہ کیا جائے اور قانون توڑنے والے کو سخت سزا دینی چاہیے، کیوں کہ ایسے لوگ نہ صرف اپنی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگی کے لئے بھی خطرہ اور وبال جان ہوتے ہیں اس لیے ہمیں ٹریفک میں یہ گاڑی چلتے وقت موبائل کا استعمال  ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ ورنہ میری رائے تو یہ کہ پولیس والے ان  پر نظر رکھیں   اور جہاں بھی کوئی اس طرح کا کام کریں  ان سے موبائل فون لے لیں اور ان پر جرمانہ عائد کیا جائے تاکہ  ان کو یہ سبق یاد رہے اور  اپنی اور دسروں کی جان کی حفاظت کرسکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button