تحریک لبیک کا احتجاج اور حکومت کی غلطیاں
مریم انم
تحریک لبیک پاکستان وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو ہر موقع پر ناموس رسالت صلہ علیہ وسلم کی دفاع کرتے ہوئے نظر آتی ہے، اس بار بھی معاملہ ناموس رسالت کا ہے جب سے فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکے شائع ہوئے ہیں یہ جماعت مسلسل حکومت پر دباو ڈال رہی ہے کہ فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالا جائے اس حوالے سے انھوں نے فیض آباد میں دھرنے دیئے پھر حکومت اور تحریک لبیک کے درمیاں ایک معاھدہ طے پایہ جسمیں یہ طے ہوا کہ حکومت بیس اپریل سے پہلے اسمبلی میں ایک بل لاکر اس پر عمل درآمد کرکے فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکال
دینگے لیکن ابھی تک ایسا نہ ہوسکا۔ انکا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت سرکاری سطح پر فرانس کے مصنوعات کا بائیکاٹ کرے۔
اگر چہ لوگوں نے اپنی حد تک بائیکاٹ کیا تاجروں نےاپنے مصنوعات سے فرانس کی مصنوعات نکالے لیکن حکومت کی طرف سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا جس کے بعد عوام میں شدید غصہ پایا گیا، لوگوں کے مطابق حکومت نے عوام سے مدینے کی ریاست کے نام پر ووٹ لیے اور حکومت بنائی لیکن اب حکومت آقائے دو جہاں صلہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطر فرانس کے سفیر کوملک سے نکال نہیں سکتی۔
اگر چہ یہ حقیقت ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے بعد عمران خان ہی وہ مسلمان حکمران ہے جس نے اقوام متحدہ میں مسلمان ممالک کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بات کی اور مغرب کی اسلام دشمنی کو بے نقاب کیا لیکن اب حقیقت میں عمل کا وقت آیا تو حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
حکومت نے معاہدے میں بیس اپریل کی ڈیڈ لائن دی تھی جس پر دونوں فریقین نے باھمی رضامندی سے دستخط کئے اب جوں جوں معاہدے کے پورا ہونے کا وقت قریب آگیا تو حکومت نے معاہدے میں مزید توسیع مانگی جس سے لبیک کے کارکنان حرکت میں آگئے اور حکومت کے اس اقدام کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ٹریفک کو بلاک کئے رکھا اور پورے ملک
میں افراتفری کا ایک سماں بندھا رہا عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا دوسری جانب حکومت نےاپنے وعدے کی پاسداری کرنےکی بجائے تحریک کے مرکزی امیر سعد رضوی کو گرفتار کیا اور ان پر قتل کا مقدمہ درج ہونے کی باتیں ہوتی رہی جس سے کارکنان کا غم اور غصہ شدید تر ہوگیا اور انہوں نے مزید احتجاج شروع کئے جو ابھی تک جاری ہے۔
اب جو ملک میں صورتحال ہے اس کی ذمہ دار صرف تحریک لبیک نہیں بلکہ حکومت بھی عائد ہوتی ہے۔ حکومت کو ان کے دو مطالبے مان لینے چاہیئے تھے تھے ایک فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا اور دوسرا تحریک لبیک کے کارکنان کی رھائی کرکے۔
دوسری طرف لبیک کی لیڈرشپ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ پاکستان ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے کیونکہ پاکستان نے FATF گرے لسٹ سے نکلنے کیلۓ جو محنت کی ہے وہ ضائع ہوجائے گی اور ویسے بھی آج کل کے دور میں ایک مہذب ملک کسی دوسرے ملک کے سفیر کو ملک بدر نہیں کرسکتا حکومت کو شروع سے چاہیئے تھا کہ وہ تحریک لبیک کا یہ مطالبہ نہ مانتی۔
تحریک لبیک کے کارکنان کو بھی تشدد کاراستہ نھیں اپنانا چاہیئے تھا کیونکہ تشدد کرنے سے کھبی بھی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ حالات اور بگڑ جاتے ہیں، ان پر تشدد مظاہروں کے نتیجے میں کئی کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کی موت ہوگئی، بہت سارے لوگ زخمی ہوئے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
کچھ ایسے مریض جو ان حالات میں ہسپتال تک نہیں پہنچے انکی موت ہوگئی غریب مزدوروں کے رکشے جلائے گئے۔ اپنے ہی ملکی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
یھاں یہ بات کر قابل زکر ہے کہ یہ معاملہ اتنا ہلکا مسئلہ نہیں اور بحیثیت مسلمان ہم سب کا یہ فرض ہے کہ جتنا ہوسکے اپنا فرض سمجھ کر اپنی طرف سے آواز أٹھائے اور دنیا کو یہ دکھائے کہ کچھ معاملات پہ ہم سمجھوتہ نہیں کرسکتے اور جو بھی ملک ہمارے نبی پاک صلہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریگا ہم ان سے کسی قسم کی سفارتی اور تجارتی تعلقات نہیں رکھیں گے لیکن اپنے ہی ملک کے بھائیوں کو نقصان پہنچا کر اپنے ہی ملک کا نقصان کرکے, نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امت کی غریب عوام کو تکلیف پہنچا کر ہم کس ہستی کی ناموس پر پہرہ دے رہے ہیں۔
ہمارے نبی تو ساری امت کیلۓ رحمت بناکر بھیجے گئے جن کی رحمت کا یہ عالم تھا کہ اپنی امت کیلئے راتوں کو اٹھ کر روتے تھے اور ان پر آنے والے مصیبتوں کو دور کرنے کیلۓ اللہ تعالہ کے بارگاہ میں گڑگڑا کر دعایں مانگتے وہ تو دونوں جھانوں کے سردار تھے پھر بھی اللہ تعالیٰ کے دربارمیں گڑگڑا کر روتے رہتے تاکہ ان کی امت کو تکالیف سے محفوظ رکھا جاسکے۔ جب کھبی جھاد کیلۓ تشریف لے جاتے تو اپنے صحابہ رضی اللہ اجمعین کو تاکید کرتے کہ خیال رکھنا کہ آپکے ہاتوں سے کسی بچے , بو ڑھے یا معذوروں کو نقصان نہ پہنچے عورتوں کا خاص خیال رکھنا۔
آج اس نبی پاک صلہ علیہ وسلم کی ناموس کیلئے انہیں کی امتیوں کے گلے گھونٹےجا رہے ہیں یہ سب کرکے گستاخوں کو تو کوئی تکلیف نہیں مل رہیں انکو تو اسلام کے خلاف پروپیگینڈہ کرنے کا اور موقع مل رہا ہے کہ یہ مسلمان تو اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔
احتجاج ہر مسلمانوں کا حق ہے لیکن ایسا احتجاج جس میں نقصان گستاخوں کا ہو۔ایسا احتجاج جس سے اسلام کے دشمنوں کو احساس ہو کہ آیندہ یہ کام کرنے سے کیا نقصان ھو سکتا ہے۔
آج اگر ہمارے اسلام کے خلاف پروپیگینڈے ہورہے ہیں تو اس میں ہمارا بھی ہاتھ ہے ھم نےاپنی قوم کو معاشی لحاظ سے اتنا مضبوط نہیں کیا کہ اسلام کے دشمنوں سے بھیک نہ مانگنا پڑے۔ آج اگر حکومت اس معاملے میں ٹال مٹول کر رہی ہے تو اسکی بڑی حد تک وجہ وہ تجارتی معاھدے ہیں جو ہمیں معاشی لحاظ سے مضبوط کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
نبی اکرم صلہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت ہر مسلمان کو اپنی جان و مال کی پرواہ کئے بغیر کرنی چاہیئے لیکن دوسرے مسلمان بھائیوں کو تکلیف پہنچا کرنہیں۔ کسی پر پابندی لگانے سے یہ مسلے حل نہیں ہوتے بلکہ یہ مسائل بہت بڑی جنگوں کا باعث بن سکتے ہیں جسکانقصان صرف ہمیں برداشت کرنا پڑے گا اسلیے حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاھیے عوام اور سیکیورٹی اداروں کو آمنے سامنے لاکر کہیں پھر وہ غلطی نہ دہرائی جائے جو جامعہ حفصہ کی شکل میں ھم نےدیکھا تھا اس کا نقصان پاکستانی قوم ابھی تک برداشت کر رہی ہے۔
نبی اکرم صلہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت ایسی کرنی چاہیئے کہ سراسر نقصان ان گستاخوں کا ہواور ایسے واقعات بحیثیت ایک قوم اور ایک امت کے ہمیں بھائی چارے میں پرو دے تاکہ سب مل کر اسلام کے دشمنوں سے نمٹے نا کہ ہمیں فرقوں اور قوموں میں تقسیم کرکے ہمارے ذہنوں سے اسلام کی اصل روح ہی نکال دے۔