”سانس جب رک جاتی تو خیال آتا کہ بس یہی آخری سانس ہے”
رانی عندلیب
”زندگی کتنی قیمتی ہے اور اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے اس کا احساس ہمیں تب ہوا جب کورونا کی جاں یوا بیماری ہمیں لاحق ہوئی، بیماری کے دوران سانس رک جاتی تو یہی خیال آتا کہ بس یہی آخری سانس ہے۔”
یہ کہنا تھا سلمی اور ناہید کا جب ان کو کورونا جیسی خطرناک وباء لاحق ہوئی، پیار اور محبت کو فلم اور ڈراموں میں بہت دیکھا تھا لیکن حقیقی زندگی میں تب احساس ہوا جب میرے پیارے پندرہ دنوں کے لیے دور ہو گئے، ان سے بات کرنے کے لیے وڈیو کال استعمال کرتے تھے۔
دو ہزار بیس کے آغاز میں کورونا وباء اتنی تیزی سے پھیل گئی کہ سال ابھی وسط تک نہیں پہنچا تھاا جب پوری دنیا کورونا کی لپیٹ میں آ گئی، ہر طرف کورونا کے بڑھتے ہوِئے کیسز نے لوگوں کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ یہ ایک جان لیوا بیماری بن گئی۔
2021 میں یہ بیماری کم ہو گئی تھی لیکن پھر اچانک دوبارہ سے کورونا نے جنم لیا اور تیسری لہر انتہائی تیز ہو گئی، جہاں کورونا خطرناک بیماری ہے وہاں مختلف قسم کی افواہوں کے باعث میرے ذہن نے اس بیماری کو بیماری ماننے سے انکار کر دیا تھا، تقریباً ایک ماہ پہلے میری دو بہنیں اور امی صوابی گئی تھیں کسی تقریب کے سلسلے میں، وہاں سے واپسی پر میری دونوں بہنوں کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی، انہیں چکر آنے لگے۔
میری بڑی بہن ناہید جہانگیر کئی سالوں سے شعبہ صحافت سے منسلک اور اب لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں بطور اسسٹنٹ میڈیا منیجر کام کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ تقریب سے واپسی پر ان کی طبیعت گاڑی میں اچانک خراب ہو گئی تھی، دل میں سوچا کہ شاید اس کی وجہ ایک دن میں صوابی آنا اور جلدی واپس گھر جانا ہو لیکن گھر آ کر بخار بہت تیز ہو گیا، رات کو سانس بند ہونا شروع ہو گئی تھی۔
حالت خراب ہونے پر ناہید کو اسی رات پشاور ڈبگری گارڈن لے جایا گیا جہاں ان کا کورونا ٹیسٹ اور ابتدائی علاج کیا گیا جس سے ان کی حالت تھوڑی بہتر ہوئی۔
اگلے دن ان کے سونگھنے اور ذائقے کی حس نے کام کرنا چھوڑ دیا، ناہید کا ٹیسٹ بھی پازیٹو آ گیا جس سے ان کی حالت اور خراب ہو گئی۔
ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق روزانہ ڈرپ لگایا جاتا جس سے ناہید کی طبیعت ایک گھنٹے تک ٹھیک رہتی، نبولائزر سانس بحال کرنے کے لیے لگایا جاتا تھا، خشک کھانسی، پورا بدن درد سے چور، تھکان سے نڈھال، ایسے لگتا جیسے طویل سفر کیا ہو۔
کرونا کی اسی صورت حال میں میری دوسری بہن سلمہ، جو کہ ایک سرکاری ہائی سکول میں استانی ہیں، کا بھی کچھ عجیب حال تھا جن کا کہنا ہے کہ صوابی سے واپسی پر جب ان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی، سر درد بھی تھا لیکن سلمی نے سوچا کہ اکثر لمبے سفر سے ایسا ہوتا ہے، وہ اگلے دن امی کے ساتھ قریبی مارکیٹ گئیں، وہاں پر سلمہ کا بی پی لو ہو گیا اور وہ گرتے گرتے بچ گئیں، پھر سونگھنے اور ذائقے کی صلاحیت سے محرومی پر سلمی کو گھر والے ہسپتال لے کر گئے، ان کا بھی کورونا ٹیسٹ کیا گیا جو مثبت تھا۔ ان کا بھی سانس پھول جاتا لیکن نیبولائزر لگانے کی نوبت نہیں آئی۔
دو بہنوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنا جیسے گھر پر قیامت ٹوٹی ہو، لیکن والدین سب سے زیادہ رنجیدہ تھے جبکہ دوسری طرف والدین کی زندگی بھی عزیز تھی لہذا والدین سے الگ ایک کمرے میں رہنا بہت تکلیف دہ مرحلہ تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ گھر میں بچے بھی موجود تھے، یہی ڈر تھا کہ اللہ نہ کرے ان کو کورونا جیسی بیماری ہو جائے، ان کو بہین کے گھر چودہ دنوں کے لئے اسلام آباد بھیج دیا۔
یہ ساری صورت حال لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ تمام عوام اللہ کی طرف سے دی گئی قیمتی جان کا خیال رکھیں، اس بیماری کو مذاق نا سمجھیں، جس پر گزری وہی جانتے ہیں۔