‘کیسی عورت ہو، ابھی تک ایک بیٹا پیدا نہیں کرسکی’
رانی عندلیب
ہمارے معاشرے میں اگر کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوجائے تو معاشرہ لڑکی اور اسکی ماں دونوں کو قصور وار ٹھراتے ہیں جبکہ لڑکی کے پیدائش کی آواز سنتے ہی ناشکر لوگ کہتے ہیں کہ ہائے ! لڑکی پیدا ہوگئی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ تاہم بات یہی ختم نہیں ہوتی اور اس کے بعد جب رفتہ رفتہ لڑکی کی عمر بڑھتی ہے تو ہر بات پر انہیں ٹوکا جاتا ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ تم لڑکی ہو، یہ کام مت کروں ، وہاں مت جاؤں ، لڑکیاں ایسے نہیں کرتی، لوگ کیا کہینگے اور اس طرح لڑکی کو گھر میں دبایا جاتا ہے۔
دوسری جانب اگر کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے اور اس گھر میں پہلے ہی لڑکیاں موجود ہو تو نہ صرف والدین بلکہ رشتہ دار سب کی توجہ لڑکے پر ہوتی ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ لڑکا گھر اکلوتا وارث ہے تاہم اگر کسی گھر میں دس لڑکے ہو اور وہاں لڑکی پیدا ہوجائے تب بھی بیٹوں کو ترجیح دی جاتی ہیں ۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں دولت کو مرد اپنی قسمت اور بچوں کو بیوی کی قسمت مانا جاتا ہے جبکہ ہمار ے مذہب میں ایسا کچھ نہیں ، اسلام میں کہا گیا ہے کہ دولت عورت اور بچے مرد کی قسمت میں ہوتے ہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں اگر عورت کے ہاں لڑکی پیدا ہوجائے تب بھی عورت کو قصور وار ٹھرایا جاتاہے اور یوں سمجھا جاتا ہے کہ اس معاملے میں مرد کا کوئی قصور نہیں ۔ اس کے برعکس اگر مرد کے پاس دولت آجائے تو وہ اس کو اپنی محنت کا نتیجہ قرار دیتا ہے ، اس کی ایک مثال پچھلے دنوں گاؤں میں ہماری ایک رشتہ دار عورت کی ہیں جس کے ہاں چھٹی بیٹی کی پیدائش پراس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔
کچھ دن پہلے میری امی گاؤں گئی تو وہاں انہیں معلوم ہوا کہ ان کے رشتہ داروں کے ہاں بیٹی ہوئی ہے ، لیکن جب میری امی ان کے ہاں مبارکباد ینے گئی تو انہیں معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے صرف اس بات پر لڑکی کے ماں کو تشدد کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے بیٹی کو جنم دیا ہے۔
امی کے بقول اس خاتون کو جب ہسپتال سے گھر لایا گیا تو شوہر نے اس حالت میں اپنی بیوی پر نہ صرف تشدد کی بلکہ انہیں کمرے میں بند کرکے گھر والوں کو حکم دیا کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی بیوی کو کوئی بھی کھانا نہیں دے گا اور اگر گھر کے کسی فرد نے اس کی حکم کو نہیں مانا تو وہ فرد اس گھر میں نہیں رہیگا۔
انہوں نے یہ بتایا کہ شوہر نے یہ بھی کہاکہ اس کی بیوی نے کون سا تیر مارا ہے کہ انہیں کھانا دیا جائے ” صرف بیٹی کو جنم دیا ہے ، کوئی بیٹا پیدا نہیں کیا اب اس عورت کی یہی سزا ہے کہ کھانے کی جگہ مار کھائے تاکہ اگلی دفعہ بیٹی پیدا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں، یہ کیسی عورت ہے کہ ابھی تک ایک بیٹا پیدا نہیں کرسکی”
جب امی نے یہ باتیں بتائی تو مجھے اس شخص پر بہت غصہ آیا کہ خود تو ایک چونٹی پیدا کرکے دکھائے اس کے بعد اس طرح کے جاہل حرکت کریں کیونکہ اللہ نے اگر اپنے بعد کسی کو پیدا کرنے کی صلاحیت دی ہیں تو وہ عورت ہے مگر جاہل لوگ اس بات کوسمجھنے سے قاصر ہیں ۔
ہمارے ہاں لوگ اسلام کے بارے میں بہت کم آگاہ ہیں کیونکہ اسلام میں بیٹی کو رحمت اور بیٹے کو نعمت کہا گیا ہے جبکہ اللہ انسان کے ساتھ رحمت کی نہیں بلکہ نعمت کا حساب کتاب کرے گا لیکن پھر بھی لوگ بیٹی سے زیادہ بیٹے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن ماں کے لئے بیٹا اور بیٹی دونوں برابر ہوتے ہیں تاہم والد کی نظر بیٹی کے لئے ہمیشہ تنگ نظر ہوتی ہے ۔ جہاں مرد اپنی بیٹی کی پیدائش پر دکھ اور غم کا اظہار کرتا ہے تو دوسری طرف وہی مرد کسی دوسرے کی بہن اور بیٹی کو گرل فرینڈ ، پہلی، دوسری ، تیسری اور چوتھی بیوی کے روپ میں پسند کرتے ہیں ۔
عموماَ دیکھا گیا ہے کہ خواتین کے ساتھ ان ناانصافیوں میں خواتین بھی مردوں کی شریک ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر درسی کتب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس صنفی تفاوت کو ختم کیا جائے تاکہ خواتین بھی بغیر کسی دباؤ کے اپنی زندگی گزار سکیں اور تربیت اولاد کے ساتھ ساتھ معاشرتی اصلاح اور معاشی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔