”وقت کے ساتھ ساتھ آن لائن نظام تعلیم میں بہتری آ ہی جائے گی”
سدرہ ایان
عالمی وباء کورونا کے آنے کے بعد زندگی کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے جس کو ٹھیک کرنے اور اپنی حالت میں واپس لانے میں کئی سالوں تک سخت محنت درکار ہو گی۔
کورونا وباء کے باعث دیگر ادراوں سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں نے سخت نقصان اٹھایا اور تمام تعلیمی ادارے بند ہو گئے جس کی وجہ سے طلبہ و طالبات کے علاوہ والدین بھی پریشانی کا شکار ہو گئے۔ کچھ طلباء کے وزیر تعلیم شفقت محمود پسندیدہ وزیر بن گئے جبکہ بعض طلباء اور ان کے والدین ان کے فیصلوں پر شدید برہمی کا شکار ہوئے۔
آن لائن تعلیم نے کچھ طلباء کے لیے آسانیاں پیدا کر دیں جبکہ بعض طلباء کی مشکلات میں اضافہ کر دیا، کچھ طلباء ایسے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں انٹرنیٹ کنکشن کا بہت مسلئہ ہوتا ہے جیسے اپر دیر، لوئر دیر، باجوڑ اور بونیر وغیرہ، بعض طالبات کا کہنا ہے کہ وہ کئی گھنٹے سخت گرمی میں گھروں کی چھتوں پر دھوپ میں چھتری لے کر کلاسز لیتے ہیں تو کبھی سارا سارا ٹائم گھر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ادھر ادھر موبائل بھگاتے رہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کنکٹ ہو اور وہ کلاس لے سکیں لیکن وہ طلباء جو یونیورسٹی فیس مشکل ہی سے دے پاتے تھے ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا اور بھی مشکل ہو گیا کیونکہ تین ماہ کے سمسٹر میں انھیں نیٹ پیکجز کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بھی تب ہی ممکن ہے جب ان کے پاس سمارٹ فونز یا لیپ ٹاپ کی سہولت موجود ہوتی ہے، ان میں سے بعض طلباء ایسے تھے جو پارٹ ٹائم میں خود پیسے کما کر اپنی فیس بھرتے تھے لیکن لاک ڈاؤن نے ان سے یہ موقع بھی چھین لیا۔
طلباء کے مطابق کے مطابق ان کو سیکھنے کو کچھ مل نہیں رہا لیکن سمسٹر فیس ان کو جمع کرانا ہی ہوتی ہے ورنہ امتحان میں ان کا ایل ایم ایس اکاؤنٹ بلاک ہو جاتا ہے اور وہ امتحان دینے سے محروم ہو جاتے ہیں تاہم ایسے طلبا بھی ہیں جو اس نظام تعلیم سے خوش ہیں، ان میں جرنلزم (صحافت) کے طلباء بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ ریگولر کلاسز میں ان کو پریکٹیکل ورک کا موقع نہیں مل رہا تھا، تھیوری اور فیلڈ ورک میں بہت فرق ہے، سال بھر کے لاک ڈاون سے انھوں نے خوب فائدہ اٹھایا، مختلف جگہوں میں انٹرنشپس کیں، ٹریننگز لیں، ورک شاپس سے بہت کچھ سیکھا اور بہت سارا فیلڈ ورک کر کے کم از کم سال بھر کا تجربہ بھی حاصل کیا۔
ان طلباء کا مزید کہنا تھا کہ نظام تعلیم میں کچھ خاص تبدیلی نہیں آئی ہے کیونکہ پہلے ان کو فیس بھر کر کچھ سیکھنے کے بعد جی پی اے دیا جاتا تھا اور اب صرف سیکھنے کا جو عمل تھا وہ درمیاں سے ہٹ گیا ہے، اب فیس دے کر نمبرز حاصل کیے جا رہے ہیں۔
ایک طالب علم کے مطبق 23 ہزار فیس جمع کروا کر 2.5 سے لے کر 3.5 تک کا جی پی اے مل جاتا ہے۔ بعض طلباء کا خیال ہے کہ یہ مسائل اپنی جگہ لیکن ان کی محنت ضائع ہو رہی ہے، ان کے خیال میں وہ دن بھر رات مطالعہ کرتے ہیں لیکن وہ طلباء جو پڑھتے نہیں ہیں اور امتحان میں وہ کاپی پیسٹ کر کے ان سے زیادہ نمبرز لے لیتے ہیں جس کی وجہ سے محنتی طلباء ”ڈسکرج” ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ söme thing is better than nothing … آن لائن تعلیم بھی ان کے لیے قابل قبول ہے بشرطیکہ آن لائن تعلیم کے نظام کو مزید سیکیور بنایا جائے۔
واضح رہے کہ موجودہ آن لائن امتحان میں کچھ بہتری لائی گئی ہے جس کی وجہ سے طلباء کو پرچے کے علاوہ دوسرا ٹیب کھولنے کی اجازت نہیں۔
طلباء پرامید ہیں کہ اگر تعلیمی ادارے نہ کھولے گئے تو وقت کے ساتھ ساتھ آن لائن نظام تعلیم میں بہتری آ ہی جائے گی۔