‘ہر کسی کی مدد کرنا، انہیں خیر پہنچانا مولانا عبدالسلام کا وطیرہ تھا’
زاہد جان
مولانا عبدالسلام نہایت خوش اخلاق اور نرم مزاج آدمی تھے، ہر کسی کی مدد کرنا ، انہیں خیر پہنچانا ان کا وطیرہ تھا اسی وجہ سے جامعات دینہ اور علاقے میں ہر کوئی ان کے ساتھ بے پناہ محبت و تعلق رکھتے تھے۔ مونا عبدالسلام 1986 کو ضلع باجوڑ کے تحصیل ماموند ڈمہ ڈولہ گاؤں میں حاجی محمد ستار کے گھر پیدا ہوئے اور گزشتہ روز ہمیشہ کے لئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔
مولانا عبدالسلام نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری سکول سے شروع کی ، ان کے والد حاجی محمد ستار چونکہ خود شعبہ تدریس سے منسلک اور علاقہ کے معزز ملک ہیں ان کی خواہش تھی کہ عبدالسلام ایک بہترین عالم دین اور مصلح انسان بن جائےاسی وجہ سے عبدالسلام نے بچپن ہی سے دین کا جذبہ و شوق رکھتے ہوئے 2001میں راولپنڈ ی کے ایک مدرسہ میں حفظ قرآن کرکے شہادۃتحفیظ قرآن والتوجید امتیازی نمبروں کے ساتھ حاصل کی ۔ حفظ قرآن کے بعد ضلع لوئیردیر علاقہ اوچ کے ایک عظیم الشان جامعہ مظہرالعلوم میں داخلہ ليکر کتب کے ابتدائی تین درجات وہاں پڑھ لیں جہاں اساتذه اور انتظامیہ نے ان کے ساتھ ایک قلبی تعلق بنا رکھا ۔
تین درجات کے بعد جامعہ اسلامیہ عربیہ شیرگڑھ مردان میں داخلہ لیا جہاں پر انہوں نےمزید تین درجات پڑھ کر رخت سفر دنیائے اسلام کے عظیم الشان ادارہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے طرف باندھا جہاں انہوں نے شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق شہید کے جیسے عظیم الشان ہستیوں کے زیر شفقت و تدریس دو سال پڑھ علوم اسلامیہ میں شہادۃ العالمیہ مساوے (ایم اے عربی ،ایم اے اسلامیات) حاصل کیا اور پھر یہی علوم نبویہ کے ترویج و تشہیر کے لئے کمر بستہ ہوکر اپنے ہی علاقہ ڈمہ ڈولہ قلاؤ میں ایک مدرسہ قائم کرکے شعبہ تدریس سے منسلک ہوئے ، ان کے قابلیت اور صلاحیتوں سے متاثر ہو مدرسہ کاشف العلوم عنایت کلے کے انتظامیہ نے ان کو درخواست کی کہ ہمارے مدرسہ میں بھی پڑھائی کے لئے کچھ وقت دی اپنے گاؤں کے مدرسہ کے علاوہ یہاں عنایت کلے میں انہوں نے تدریس کے خدمات شروع کردی جس سے متاثر ہوکر کئی طلباء ان کے سامنے بیٹھ کر شرف تلمذ حاصل کی ۔
مولانا عبدالسلام زمانہ طالب علمی ہی سے جمعیت علماء اسلام کے ذیلی تنظیم جمعیت طلباء اسلام سے تعلق رکھتے تھے اور طلباء کرام کے بہبود وترقی کے لئے زمانہ طالب علمی ہی میں اپنے تمام تر صلاحیتیں استعمال کرتے تھے، ان کے اس شغف اور تعلق کو جارے رکھتے ہوئے سندفراغت کے حصول کے بعد انہوں نے جمعیت علمائے اسلام کے زیرسایہ سیاسی جدوجہد کا آغاز کردیا اور اپنے علاقے کے یونٹ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے .
اس منصب پر انہوں نے بے پناہ خدمات اور قربانیاں دیکر تحصیل کے سالار اور پھر ضلع باجوڑ کے سالار انصار الاسلام منتخب ہوئے ، مرکزی قیادت چونکہ ان کے قربانیاں اور خدمات دیکھ رہی تھی اس وجہ سے مرکزی قیادت نے مولانا عبدالسلام کو پورے قبائل کا سالارانصارالاسلام مقرر کیا جو تا دم شہادت انہوں نے بہترین انداز سے نبھایا۔
مولانا عبدالسلام پر25 مارچ 2021 اس وقت اپنے گھر کے ساتھ بم بلاسٹ ہوا جب انہوں نے اپنے مدرسہ میں پڑھنے والے بچوں کے لئے صبح کا ناشتہ اپنے گھر سے لیکر جارہے تھے ، بلاسٹینگ کے بعد ابتدائی طبی علاج کے لئے ڈسٹرکٹ ہسپتال خار منتقل کیا گیا، چونکہ زخموں سے خون زیادہ بہہ رہاتھا ۔
یہاں کے ڈاکٹروں نے ان کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کردیا جہاں پر ان کا 2اپریل تک علاج جاری تھی ، چونکہ عالمی وباء کورونا کی وجہ سے ایل آر ایچ ہسپتال میں وارڈز بھررہے تھے اس وجہ سے مولانا عبدالسلام کو و ہاں سے الشفاء انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد منتقل کردیا گیا جہاں پر دو دن کے علاج معالجے کے باوجود زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پا گئے۔
5مارچ صبح دس بجے عنایت کلے کے مقام پر ان کی نمازجنازہ ادا کردی گی جس میں ہزاروں لوگوں سمیت جمعیت علمائے اسلام کےمرکزی رہنما ایم این اے مفتی عبدالشکور، سابق ایم پی اے مولانا مفتی فضل غفور، ایم این اےمولانا جمال الدین، ایم پی اے مولانا عصام الدین، مفتی اعجاز ، مولانااحمدسعید، مولانا عارف حقانی سمیت کثیر تعداد میں شرکت کی.
اس موقع پر امیر جمعیت علمائے اسلام صوبہ خیبرپختونخوا سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے مولانا عبدالسلام کے والد و دیگر اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ملک کے حفاظت کے لئے مقرر اداروں اور مقتدر قوتوں کو یہ بات واضح کی ہے کہ مولانا عبدالسلام کے قاتلوں کو گرفتار کرکے واقعی سزا دی ورنہ پھر جمعیت علمائے اسلام کے کارکن اپنی قیادت کے حکم پر ڈی سی اور کمانڈنٹ سکاؤٹس کےدفاتر کے سامنے دھرنا دینگے جہاں کے حالت قابو کرنا پھر حکومت وقت کی ذمہ داری ہوگی۔مولانا عبدالسلام کو اپنے علاقے کے قبرستان میں دفن کیا گیا، ان کے سوگوران میں ان کے والدین اور دوبیٹے اورچار بیٹیاں ہیں ،جن میں بڑا بیٹا محمد طلحہ11سال کا ہے۔