کورونا وائرس نے زندگی کے رنگ پیکے کردیئے
سمن خلیل
مجھے وہ وقت یاد ہے جب ہم بغیرکسی ڈر کے یونیورسٹی جاتے تھے، دوستوں سے ملتے تھے ،رشتہ داروں کے ہاں جاتے تھے وہ ہمارے ہاں آتے تھے اور شادی بیاہ میں شرکت کرتے تھے لیکن اب یہ سب باتیں ہماری زندگی کی یادیں بن چکی ہے جسکی سب سے بڑی وجہ کورونا وائرس ہے کیونکہ جب سے کورونا وائرس وبا دنیا میں پھیلی ہے تب سے دنیا کے حالات بدل گئے ہیں۔
جب پچھلے سال چین کے شہرووہان سے یہ وائرس دنیا بھر میں پھیل گیا تو اس سے خیبرپختونخوا سمیت پوری دنیا متاثر ہوگئی، سوال یہ تھا کہ کورونا وائرس ہے کیا اور یہ کرتا کیا ہے؟
یہ آپ کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور اس سے بخار، کھانسی اور سانس میں دِقت جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں، وائرس آپ کے جسم میں جانے کے بعد یہ علامات 2سے 14دن میں ظاہر ہوتی ہیں اور یہی بات اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ایک بڑا چیلنج ہے۔
آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ بالکل ٹھیک ہیں لیکن آپ دوسرے لوگوں تک جراثیم منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ عام طور پر ایک انسان سے دوسرے انسان تک یہ وائرس کھانسی یا چھینک کے ذریعے یا پانی کے چھوٹے چھوٹے ذروں سے منتقل ہوتا ہے۔
اس کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہے، صرف اِس کی علامات کو مینج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہمارے جسم کی قوتِ مدافعت اِس کو خود ہی وقت کے ساتھ ختم کر دیتی ہے لیکن 25فیصد کیسز میں مریض سیریس بھی ہو جاتے ہیں۔
بالخصوص بوڑھے افراد یا وہ لوگ جو پہلے ہی کسی بیماری میں مبتلا ہو، کے لیے یہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ اِس کی ویکسین بنانے کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے لیکن ایک کامیاب حفاظتی ویکسین بنانے میں مزید ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
ہمیں ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ہرروز کورونا وائرس سے لوگوں کے مرنے اور نئے کیسز رپورٹ ہونے کا پتہ چلتا تھا اور دل میں ایک خوف پیدا ہوتا کہ خدانخواستہ اگر میں اور میری فیملی کا کوئی فرد اس وائرس کا شکار ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس ڈر کو دل میں لئے میں نے خود اختیاط کرنا شروع کیا لیکن جب یونیورسٹی کے بارے میں سوچتی تو پھر ڈر جاتی تھی کہ کہیں یونیورسٹی میں مجھے یہ وائرس نہ لگ جائے۔ میرے لئے اچھی خبر یہ تھی کہ یونیورسٹی بند ہوگئی اور آہستہ آہستہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہوگیا لوگ گھروں تک محدود رہ گئے، دفتروں میں کام کرنے والے گھروں سے ان لائن کام کرنے لگے لیکن دوسری طرف وہ لوگ جو مزدور ی کرتے تھے وہ بے روزگار ہوگئے، جہاں نیٹ کام نہیں کرتا وہاں طلبہ کو ان لائن کلاسز لینے میں مشکلات پیش آتی ، جو بچے پرائیوٹ سکولوں میں پڑھتے ان کے والدین فیس دینے پر پریشان تھے کیونکہ ان کے بچے سکول نہیں جاتے اور سکول میں ان سے فیس مانگا جاتا تھا کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پرائیوٹ سکول میں پڑھانے والے اساتذہ بھی شدید مشکلات سے دوچار ہوئے کیونکہ ان کو بھی تنخواہیں نہیں ملتی جس سے وہ اپنے گھروں کا خرچہ برداشت کرتے۔
خیر عید کے بعدحالات کچھ بہتر ہونے لگے لاک ڈاؤن ختم ہوا، یونیورسٹیز بھی کھول دی گئی اور بچے بھی سکول جانے لگے اور یوں لگا جیسے ہمیں ایک نئی زندگی مل گئی لیکن اس دوران ہم نےکورونا وائرس کی پہلی لہر میں ہم کافی جانی، معاشی اور تعلیمی نقصان اٹھانا پڑا۔ اب کچھ عرصہ ہوا تھا کہ دوبارہ یہ خبر سنے کو ملی کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہوئی ہے جوکہ پہلی سے بہت خطرناک ہے یہ سنتے ہی دل پر کالے بادل آنے لگے اور دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ یہ کیا ہوا اب دوبارہ یہ سب کچھ بند ہوگا لیکن دوسری لہر پہلی کی طرح نہیں تھی کئی جگہوں سے زیادہ کیسز رپورٹ ہونے کی خبریں آئی لیکن سب سے اچھی خبر یہ تھی کہ دنیا کورونا وائرس کی ویکیسن بنانے میں کامیاب ہوئی اور اب یہ ویکیسن کورونا وائرس کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔
اب چونکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ویکیسن لگانے کا عمل جاری ہے لیکن اس دوران کورونا وائرس کی تیسری لہر پھوٹ پڑی جس سے ایک مرتبہ پھر کورونا کیسز میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور ساتھ میں خبر آئی کہ یہ لہر پہلے دو لہروں سے اس وجہ سے مختلف اور خطرناک ہے کیونکہ اس بار بڑوں کے ساتھ چھوٹے بچے میں اس وائرس کا شکار ہوتے ہیں ۔
وفاقی وزارت صحت کے مطابق ملک بھر میں اب تک 10 سال تک 8 ہزار 420 بچیاں کورونا وائرس کا شکار ہوئی ہیں جبکہ اسی عمر کے 12 ہزار 336 بچے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کی تیسری لہر میں زیادہ کیسز رپورٹ ہونے کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام نے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ہم سب کے لیے اس وقت سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم حفاظتی تدابیر پر عمل کریں اور اسی طرح ہی ہم اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو اس سے محفوظ بنا سکتے ہیں۔