بلاگز

ہاتھوں میں سیاہ جھنڈے اور کندھوں پر محوسفر انصاف کی منتظر چار لاشیں

مصباح الدین اتمانی

بنوں جانی خیل سے ہزاروں افراد پر مشتمل قافلہ اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھا کہ ٹوچی پل کے مقام پر پولیس کے بھری نفری نے انہیں روک لیا۔ان کے ہاتھوں میں کالے رنگ کے بیرغ اور کندھوں پر ان چار شہیدوں کی لاشیں تھے جو آج سے تقریبا ایک مہینہ پہلے گھر سے شکار کیلئے نکلے اور پھر واپس نہیں آئیں۔ بے چین والدین اپنے بچوں کو تین ہفتوں تک ڈھونڈتے رہے لیکن کوئی اتا پتہ نہیں چلا۔

آج سے ایک ہفتہ پہلے آوارہ کتوں نے ان کی لاشیں ڈھونڈ نکالے، کب، کس نے اور کیوں مارا یہ کوئی نہیں جانتا۔انصاف کے حصول کیلئے ورثاء نے بنوں شہر سے 30 کلومیٹر دور جانی خیل کے مقام پر احتجاجی دھرنا دینے کا فیصلہ کیا، ان کے مطالبات واضح اور معنی خیز تھے۔

پہلا مطالبہ تھا کہ قاتلوں کو منظرعام پر لایا جائے۔دوسرا مطالبہ تھا کہ ذمہ داروں کیخلاف ایف آئی آر درج کی جائیں،تیسرا مطالبہ تھا کہ ان کو شہداء پیکیج دیا جائیں اور چوتھا مطالبہ تھا کہ جانی خیل قوم کو امن کی ضمانت دی جائیں۔مطالبات منوانے کیلئے وہ مسلسل ایک ہفتہ دھرنا دیے بیٹھے رہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت سنجیدگی سے ان کی مطالبات پر غور کرتے، انہوں نے رسمی مذاکرات پر اکتفا کیا اور ناکام ہونے کے بعد خواب خرگوش کی نیند سونے لگے۔

ایک جگہ پر جمع  جانی خیل قوم کرب سے گزر رہا تھا، حکومت کی عدم توجہ ان کو مایوسی کی طرف دھکیل رہا تھا کہ اس دوران ایک حکومتی وزیر نے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بیان داغ ڈالا کہ حکومت بیشتر مطالبات ماننے کیلئے تیار ہے، لیکن لاشوں پر محض سیاست ہو رہی ہے۔بعد میں جانی خیل قوم نے انصاف کیلئے اسلام آباد کی طرف جانے کا فیصلہ کیا اور وہ آج صبح سویرے روانہ ہوئے، کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کی پولیس کے بھری نفری نے ان کو ٹوچی پل کے مقام پر روک لیا۔

ہزاروں افراد پچھلے دو گھنٹوں سے لاشوں کی ہمراہ وہاں کھڑے انتظامیہ سے اپیل کر رہے ہے کہ ان کا راستہ نہ روکا جائیں، انہیں ہر حال میں اسلام آباد جانا ہے، لیکن کوئی سننے والا نہیں۔حکومت کے ذمہ دار افراد کو شاید ان حالات کے سنگینی کا اندازہ نہیں اس لئے ان سے مذاکرات کے بجائے پولیس کو رکاوٹیں کھڑے کرنے کا کہا جا رہا ہیں۔

ٹوچی پل کے ایک طرف ہاتھوں میں سفید اور کالے رنگ کے جھنڈے لئے غم سے نڈھال جانی خیل کی عوام ہے تو دوسری طرف ڈانڈا بردار پولیس کے اہلکار۔جانی خیل قوم اسلام آباد کی طرف جانے کا ضد کر رہے ہیں اور پولیس اعلی افسران کی ہدایت پر ان کا راستہ روک رہے ہیں۔خدانخواستہ اگر یہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو پھر حالات پر قابوں پانا حکومت وقت کیلئے ناممکن ہو جائیں گا۔

جانی خیل قوم سے اظہار ہمدردی کیلئے ملک کی مختلف حصوں سے لوگ روانہ ہو رہے ہیں، کوہاٹ سمیت کئی علاقوں میں پولیس نے کئی افراد روک رکھے ہیں۔بجائے اس کے کہ حکومتی ذمہ دران اس مارچ کو سیاست سے جوڑ دیں وہ جانی خیل قوم کے مشران اور شہداء کے ورثاء کو گلے لگائیں، ان کی فریاد سنے اور ان کے جائز مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button