ایک کلومیٹر کی سڑک پر چار مختلف احتجاجوں کی روداد
مصباح الدین اتمانی
معمول کے برعکس تقریبا ایک گھنٹہ پہلے گھر سے دفتر کیلئے نکلا، پہلے سے یہ ہدایت تھی کہ پشاور پریس کلب کے سامنے ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے احتجاجی مظاہرے کو کوور کرنا ہے۔
ابھی گورنر ہاؤس پہنچا ہی تھا کہ دیکھا سامنے سے لوگوں کا ایک ہجوم آرہا ہے ،جو ہاتھوں میں بینرز لیے نعرے لگا رہے ہیں” مونږ امن غواڑو، مونږ امن غواڑو” یعنی ہم امن چاہتے ہیں میں نے یہ سوچ کر موٹر سائیکل ایک سائیڈ پر کھڑا کر دیا کہ یہ وہی احتجاجی مظاہرہ ہے جس کو کوور کرنے کیلئے مجھے بتایا گیا تھا، لیکن ان کے ہاتھوں میں بینرز دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ یہ لوگ وزیرستان سے آئے ہیں اور وہاں دو قوموں کے درمیان جاری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس مسئلے کے بارے میں مذید جاننا چاہتا تھا کیوں کہ یہ مسئلہ تقریبا تمام ضم اضلاع میں بیک وقت ابھر کر سامنے آیا ہے لیکن پشاور پریس کلب دو منٹ کی دوری پر تھا اور جس احتجاج کو کوور کرنے کے ارادے سے نکلا تھا وہ شروع ہونے والا ہی تھا، یوں نہ چاہتے ہوئے بھی میں پشاور پریس کلب کیطرف روانہ ہوا، جہاں پہنچتے ہی ” ناکام حکومت، ہائے ہائے” کے نعروں سے فضا گونج رہی تھی، یہ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام تھے، جو حکومت کی ناقص پالیسی سے انتہائی مایوس نظر آرہے تھے، قوم کی ان معماروں کو شکوہ تھا جن کے ہمراہ خواتین استانیاں بھی موجود تھی کہ ایک طرف بی آر ٹی سروس سمیت پبلک ٹرانسپورٹ، بازار اور منڈیاں کھولی ہے تو دوسری طرف نہ صرف ہمارے سکولوں کو سیل کیا جا رہا ہے بلکہ بغیر لیڈیز افیسرز کے میل افسران نجی تعلیمی اداروں میں گھس جاتے ہیں اور طالبات سمیت خواتین ٹیچرز کی فلمیں بناتے ہیں۔
ان کے جذبات اور احساسات سے بھری باتیں ریکارڈ کرنے میں مگن تھا کہ نیوز روم سے کال آئی ، پوچھنے پر بتایا کہ پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کے بعد صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج ہے آپ وہاں جاکر کوور کریں ، اب میں شش و پنج میں مبتلا تھا کیوں کہ پشاور پریس کلب کے سامنے ایک سائیڈ پر ضم اضلاع کے نوجوان جمع تھے، وہ اپنی بھاری کا انتظار کر رہے تھے، پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے احتجاج کے بعد انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا تھا میں ایک دم حیران ہوا کہ یہ حالات کس موڑ پر کھڑے ہیں، بیک وقت حکومت مخالف تین تین اور چار چار احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، کوئی تعلیمی اداروں کی بندش کیخلاف احتجاج کر رہا ہے تو کوئی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والے مبشر اور پولیس حوالات میں اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے والے چودہ سالہ شاہ زیب آفریدی کو انصاف دلانے کیلئے۔
کوئی ضم اضلاع میں زمینی تنازعات ضلعی انتظامیہ کا سازش قرار دے رہے ہیں تو کوئی ہاتھوں میں بینرز لیے پولیس اور خاصہ دار فورس کے شہداء کے ورثاء کو انصاف دلانے کے متمنی ہیں۔
حکومت کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک احتجاج قابل غور تھا، 2017 کی بات ہے 10، 12 افراد پشاور پریس کلب کے سامنے جمع ہوتے تو حکومتی نمائندے بروقت مزاکرات کیلئے پہنچ جاتے لیکن اب حالات بالکل مختلف ہے ، نہ تو کوئی نمائندہ آیا اور نہ ہی میڈیا کے وہ لوگ موجود تھے جو کسی زمانے میں اس انتظار میں ہوتے کہ کب کوئی احتجاج پشاور پریس کلب کا رخ کریں گا تاکہ اس کو کوور کر کے اپنے اخبار یا ٹی وی کی زینت بنا دے شاید وہ بھی حکومت مخالف ان نہ ختم ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے تنگ آچکے ہیں۔
بحر حال میں نے نیوز روم میں بیٹھے اپنے سینئر کو بتا دیا کہ بس یہاں یہ دو احتجاج ہو جائیں تو میں صوبائی اسمبلی جاوں گا۔
حکومت اور حکومتی نمائندوں کو جوش تقریر میں برا بھلا کہنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کا رونا رونے کے بعد ٹیچرز اپنے گھروں کا رخت سفر باند چکے تھے کہ فورا ضم اضلاع کے نوجوانوں نے حکومت اور خیبر پختونخوا پولیس کے خلاف پوزیشن سنبھال لیا۔
انہوں نے آتے ہی پولیس کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں غفلت اور لاپرواہی میں بے مثال قرار دیا۔ آئین اور قانون کو بطور دلیل سامنے رکھتے ہوئے ان نوجوانوں نے وزیر اعظم اور چیف جسٹس کو مخاطب کیا کہ چودہ سالہ بچے شاہ زیب آفریدی کو ابزرویشن ہوم کی بجائے حوالات میں بند کرنا قانون کے منافی عمل ہے، جوڈیشل انکوائری کو انصاف کے تقاضے مدنظر رکھ کر منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
انہوں نے سات مارچ کو دلہ زاک روڈ پشاور پر پولیس کی فائرنگ سے شہید ہونے والے مبشر وزیر کیس اور اس میں موجود خامیوں کو منظرعام پر لایا۔
میں نے یہاں سے خیبر پختونخوا اسمبلی ہاوس کا رخ کیا جہاں اسمبلی ہاوس کے بالکل سامنے پولیس اور خاصہ دار فورس کے شہداء کے ورثاء موجود تھے، ان کے عقب میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی اتحاد نے ڈھیرے ڈالے تھے، ہر طرف سے انصاف دو انصاف کے نعرے گونج رہے تھے، ان حالات اور مخلتف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی آہ و بکا نے مجھے ذہنی اضطراب میں مبتلا کر رکھا تھا، لیکن صحافت کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میں اپنے آپ کو تسلی دے رہا تھا کہ ان کے یہ مسائل حکومتی ایوانوں میں بیٹھے اندھے اور گونگے حکمرانوں تک پہنچ جائیں گے، تھکا ہارا نیوز روم پہنچا، احتجاج کی ایک رپورٹ پبلش کروائی، گھنٹہ دو بعد بعد دوسری احتجاج کو بھی شیئر کر دیا، لیکن اب اس خیال نے مجھے ذہنی اضطراب میں مبتلا کر دیا تھا کہ عام لوگ احتجاج پر احتجاج اور یہ مایوسی دیکھیں گے تو خوامخواہ ذہنی طور پر متاثر ہونگے، کچھ ہی دیر بعد اپنے سینئر نے بھی یہی رہنمائی کی، تب جاکر اس پر لکھنے کی جسارت کی۔