رانی عندلیب
لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں "جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔” لاہور کے تاریخی مقامات کی خوبصورتی کے بارے میں تو نہ صرف بڑے بزرگوں سے سننا بلکہ کتابوں میں بھی پڑھا تو بچپن سے ہی لاھور دیکھنے کا اشتیاق رہا کیونکہ دادا گنج بخش کی عظمت کے قصے بہت سنے تھے۔ مینار پاکستان کے متعلق تاریخی واقعات، جو کتابوں میں ہیں، پڑھے تو دیکھنے کے لیے دل مچل اٹھا، بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، انارکلی بازار جسے جگہوں کو دیکھنے کا ارمان دل میں تھا۔
لیکن کبھی موقع نہیں ملا کہ لاھور دیکھنے جاؤں۔ یہ خواہش دل میں بچپن ہی سے تھی۔ آخر کار 10 نومبر 2020 کو یہ خواہش پوری ہونے کی باری آئی جب ایک میڈیا ٹریننگ کے سلسلے میں لاھور جانے کا موقع ملا۔ جانے سے پہلے بہت زیادہ خوش تھی کہ میں ٹریننگ اٹینڈ کرنے کے بعد لاھور دیکھوں گی۔ چونکہ تین دن کی ٹرینگ تھی اس لئے لاھور جانے سے قبل رات کو بہت زیادہ خوش تھی۔
خوشی اور ٹینشن کی ملی جلی کیفیت کی وجہ سے میری نیند اڑ گئی، جب صبح ہوئی تو 12 بجے لاھور کے لیے روانہ ہو گئی۔ 25 دیگر لوگ بھی ہمراہ تھے۔ موٹر وے پر پشاور سے لاھور تک کا سفر 6 گھنٹوں کی بجائے 8 گھنٹوں میں طے کیا۔ میں نے للیہ موڑ، کلر کہار بھی پہلی دفعہ دیکھے، رات کو 9 بجے کے قریب ہم اڈے پہنچے پھر وہاں سے ہم کلمہ چوک روانہ ہوئے جہاں پہ قذافی سٹیڈیم بھی تھا۔ دل میں یہ ارزو جاگ اٹھی کہ کرکٹ کا بڑاّ میدان جو قذافی کے نام سے بنایا گیا ہے، ٹی و ی پہ تو کرکٹ میچ کے دوران بہت دیکھا اب اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ آؤں۔
گلبرگ میں ٹریننگ والا ہوٹل تھا جہاں پر ہمیں ٹھہرنا تھا۔ جب ہم نے اپنا سامان اپنے اپنے کمروں میں رکھا تو اس کے بعد ہم برکت مارکیٹ گئے جہاں پر ڈنر کیا۔ رات کو 12 بجے ہم وہاں سے فارغ ہوئے تو اگلے دن کے لیے ہم نے کپڑے استری کیے۔ دو دو لڑکیوں کو ایک ایک کمرا ملا میرے ساتھ میری بہن بھی گئی تھی تو ہم دونوں ایک ہی کمرے میں ٹھہرے۔
ہم نے رات سے ہی منصوبہ بنایا کہ اگلے دن ٹریننگ ختم ہونے کے بعد لاھور دیکھنے جائیں گے، اگلے دن 9 بجے کے قریب شروع ہو گئی۔ جب ٹی بریک ہوا تو ہمیں پتہ چلا کہ آج کا سیشن شام 7 بجے تک ہو گا۔
اس کے بعد چونکہ لاھور میں سمارٹ لاک ڈاون لگ گیا اور اگلے دن کا سیشن 12 بجے تک تھا تو بس لاھور دیکھنے کے میرے ارمان پر پانی پھر گیا۔
یہ خبر کسی بم دھماکے کی خبر سے کم نہ تھی۔ رات کو 10 بجے کرفیو لگا دیا گیا۔ پھر اگلے دن 12 بجے سیشن مکمل ہوا تو ہمیں یہ بتایا گیا کہ جتنی جلدی ہو سکے پشاور کیلئے روانہ ہو جاؤ کیونکہ پھر ایسا نہ ہو کہ ادھر لاھور میں ہی رہ جاؤ اور پھر نکلنا مشکل ہو جائے اس طرح ہم تاریخی مقامات کو دیکھنے کا ارمان دل میں ہی لے کر واپس آ گئے۔