ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹریفک کے بڑھتے حادثات کی وجوہات کیا ہیں؟
سعد سہیل
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان دریائے سندھ کے مغربی کنارے آباد ہے جو اپنے جغرافیائی اور تاریخی لحاظ سے بہت اہم ہے. ڈیرہ اسماعیل خان کو تین صوبوں کا سنگم بھی کہتے ہیں جوں جوں شہر کی آبادی بڑھتی گئی وہاں بہت سے مسائل جنم لیتے رہے مگر ٹریفک کا مسئلہ بہت ہی اہم ہے۔ اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان کی آبادی تقریبا 17 لاکھ کے قریب ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں، موٹر بائیک اور چنگچی رکشوں کی تعداد میں بےتہا اضافہ ہوتا جا رہا ہے ڈی آئی خان میں چنگ چی رکشہ اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں اضافے کی بنیادی وجہ آسان اقساط پر پر دستیابی ہے، خصوصاً شہر کے مضافات سے انے والے لوگ جو کہ نا تجربہ کار ڈرائیور ہوتے ہیں شہر کی ٹریفک میں خلل کا باعث بن رہے ہیں۔
آئے روز ہمارے شہر میں چنگ چی رکشوں کی وجہ سے درجنوں ایکسیڈنٹ ہو رہے ہیں ایک اندازے کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں 50 ہزار سے زائد غیر رجسٹرڈ چنگچی رکشہ چل رہے ہیں . ان میں بیشتر چنگچی چلانے والے ہمارے قبائل بھائی ہیں 2008 میں آپریشن راہ نجات کے بعد ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا جن میں بہت سے قبائل کے لوگوں نے مختلف شہروں کا رخ کیا، پرامن ہونے کی وجہ سے یہاں سینکڑوں خاندان آباد ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں نے نہ صرف ان کو رہنے کی جگہ دیں بلکہ یہاں مختلف سکولوں اور کالجوں میں ایڈمیشن بھی دیے پر بات تھی ان نوجوانوں کی جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور نہ ہی ان کو کوئی روزگار دیا جاسکتا تھا ڈیرہ اسماعیل خان کے اپنے نوجوان روزگار کی تلاش میں اسلام آباد لاہور کا رخ کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہاں پر اداروں کی کمی انڈسٹریز اور کارخانوں کا نہ ہونا ہے . لہذا آسان اقساط پر چنگچی رکشہ ہی ان کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ بن گیا۔
پر اس کی وجہ سے شہر پر اس کا بہت زیادہ بوجھ بڑھ گیا آئے روز چنگچی رکشوں کی وجہ سے درجنوں ایکسیڈنٹ ہو رہے ہیں ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے ہسپتالوں میں 80 فیصد کیسز چنگچی رکشہ کی ٹکر کی وجہ سے آئے ہوتے ہیں علاوہ ازیں شہر میں پلازوں میں پارکنگ کا نہ ہونا، غیر قانونی پلازہ کی تعمیرات شہر میں اب جگہ جگہ بڑے بڑے بڑے شاپنگ مال اور پلازے بن گئے ہیں ماسوائے چند ایک کے پارکنگ کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے سب سے زیادہ مشکل اس وقت ہوتی ہے جب سکولز ،کالجز اور یونیورسٹیز کی چھٹی کا وقت ہوتا ہے اس کی وجہ سے کافی وقت ٹریفک جام رہتی ہے بسا اوقات ٹریفک کی وجہ سے ایمبولینس کو راستہ نہیں مل پاتا۔
2008 میں لگے ٹریفک سگنلز اب مجسموں کی شکل اختیار کر چکے ہیں تاجر اور نوکری پیشہ افراد سمیت طلباء بھی شدید بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار بن رہے ہیں اس حوالے سے ہم نے ٹریفک انچارج عزت گل سے گفتگو کی ان کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کی کمی اور محدود وسائل کے باوجود ہم ٹریفک کی روانی کیلئے کوشاں ییں عوام بھی ہمارا ساتھ دیں جب بھی آپ شاپنگ کے لیے گھر سے نکلے تو اپنی گاڑی روڈ کے ساتھ کھڑی نہ کریں ورنہ لفٹر آپ کی گاڑی کو اٹھا لےگا اور آپ پر جرمانہ بھی ہوسکتا ہے دوسرا ہم اگر چنگ چی رکشے والے کو روکتے ہیں اس سے لائسنس طلب کرتے ہیں تو وہ اس کے پاس نہیں ہوتا لہٰذا مجبوراً ہمیں ان پر جرمانہ کرنا پڑتا ہے جس پر ان کی ایسو سیشن احتجاج کرتی ہے کہ غریبوں کا روزگار مت چھینوں لہٰذا میرے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ اگر ہم ان چنگچی رکشوں کے لئے ایک روٹ متعین کر دیں تو ممکن ہے کہ نہ صرف شہر پر بھی ان کا بوجھ کم ہو جائے گا بلکہ روڈ ایکسیڈنٹ میں بھی کمی واقع ہوگی۔ اس کے علاوہ ہم نے سکول ٹائم میں بسز لوڈز اور ہیوی ٹریفک کا داخلہ ممنوع کر رکھا ہے۔
ہمیں اپنے شہر کو خود ایک پائیدار شہر بنانا ہے لہذا میری تمام لوگوں سے گزارش ہے کے اٹھارہ سال سے کم بچوں کو بالکل بائیک نہ دیں سائیکل کے استعمال کو فروغ دیں اور اگر آپ بائک استعمال کریں تو ہیلمٹ کا استعمال ضرور کریں کیونکہ جان ہے تو جہان ہے.