سماجی انقلاب کیلئے خود کو بدلنے کی ضرورت ہے!
سی جے شمائلہ آفریدی
جب ناانصافی، غربت، دہشتگردی، بے روزگاری، کرپشن، سیاسی اور تعلیمی مسائل اور بنیادی حقوق کی پامالی جیسی برائیاں کسی ملک میں پروان چڑھنے لگیں، جب ارباب اختیار اور حکومت کی کارگردگی ناکارہ بن جائے، جب غریب عوام کے بنیادی حقوق مکمل طور پر سلب کۓ جاٸیں، جب ترقی کا عمل رک جائے اور زمام اقتدار نااہل، کرپٹ اور ناتجربہ کار حکمرانوں کے ہاتھ آ جائے، جب حکومت حالات سدھارنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے، جہاں فیکٹریوں میں غریب عوام کا پسینہ بہتا رہے اور اسے اپنی محنت کی مناسب اجرت نہ ملے، جہاں بدکاروں کی سیاہ کاریوں کی پردہ پوشی کی جائے لیکن بے گناہ لوگوں کو بدنامی اور ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے، جہاں غربت اپنے انتہا کو پہنچ جائے اور غریب کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہو جائے، جہاں عیاش پسند اشرافیہ کے ہاتھوں میں اقتدار منتقل ہو جائے اور یہ طبقہ اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر عوام کے بنیادی حقوق کو بری طرح پامال کر کے اپنی عیاشیوں میں لگا رہے اور عوام بے بس ہو کر اپنی بربادی کا تماشہ دیکھنے لگیں، جب یہ خود غرض اور مفاد پرست ٹولہ حکمران بن کر جونک کی طرح عوام کا خون چوسنے لگے تو وہاں پر ایک ایسے انقلاب کو برپا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس استبدادی نظام کی کایا پلٹ دے۔ ایسا انقلاب جہاں 95 فیصد عوام پانچ فیصد سرمایہ داروں کے ظلم پر مبنی اس نظام کو سمندر برد کر دیں اور اس کی جگہ ایک ایسا نظام راٸج ہو جو مظلوم طبقوں کی ترجمانی کرے۔ عوامی طاقت کے ذریعے ظالمانہ نظام کی تبدیلی کے اس عمل کو ہی انقلاب کہتے ہیں۔
ماضی میں فرانس، چین، روس، ایران و امریکہ میں رونما ہونے والے انقلابات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان عظیم انقلابات کے فوری اسباب دراصل حکمرانوں کے ظلم، کرپشن، ناانصافی اور غیر انسانی امتیازی سلوک پر مشتمل جبر و استبداد کا نظام تھا۔ اقتدار کا سرچشمہ چند ظالم اور عیاش پسند سردار تھے جہاں عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکے ڈالے جاتے تھے۔ لیکن جب ظلم و جبر کا یہ نظام اپنے حدود سے تجاوز کر گیا اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے حقوق اور اختیارات کے حوالے سے ان میں شعور اور آگاہی بڑھنے لگی تو آخر کار وہ اپنے حقوق کے تحفظ اور اپنی بقاء کے لئے باہم متفق ہو کر استعماری قوتوں کے خلاف صف آرا ہوئے۔ عوام میں حق لینے کی ہمت اور انسانیت کی خاطر جان دینے کا حوصلہ بھی موجود تھا۔ انھوں نے اپنے ذاتی مفاد پر قومی اور اجتماعی مفاد کو ترجیح دی جس کے نتائج مثبت ائے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ایک استعماری و آمرانہ نظام کا خاتمہ ہوا اور ایک نیا سماجی نظام، جو انصاف کے اصولوں پر مشتمل تھا، وجود میں آیا۔
آج اگر ہم اپنے مملکت خداداد پاکستان میں دیکھیں تو وہ تمام برائیاں ملک کے اندر موجود ہیں جو کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہیں۔ ہماری بیورو کریسی، انتظامیہ غرض ہر ادارہ ہر قسم کی اخلاقی اور معاشرتی براٸیوں میں مبتلا ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسے ہم عوام ہیں ویسے ہی ہمارے اوپر حکمران مسلط کر دیئے گئے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد یہاں ہر دور میں عوام الناس کو انقلاب کے نام پر خواب دکھائے گئے ہیں۔ انقلاب کے نام پر عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے لیکن اقتدار ملتے ہی وہ سارے خواب مٹی میں مل جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں انقلاب اور تبدیلی کے نام پر جو سیاسی جماعت بر سر اقتدار آئی ہے اس کی کارکردگی بھی پچھلی حکومتوں کی کارکردگی کی طرح سارے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ عام شہری کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ ہر جگہ ایک خاص طبقہ کی اجارہ داری قاٸم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے عام طبقات کیلئے زندہ رہنا اور عزت کی زندگی گزارنا دشوار ہو چکا ہے۔ ملک کا سیاسی نظام تمام خرابیوں کی جڑ بن چکا ہے۔ ہر پہلو سے درد کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہر گوشہ زخمی، پریشاں اور ہر کوئی خواب کی تعبیر چاہتا ہے اور روشنی کی کرن کا طلبگار ہے۔
اگر ایک ملک کی حکومت نااہل ہوتی ہے تو ہم عوام آخر کس مرض کی دوا ہیں؟ اللہ کے بعد سب سے بڑی طاقت عوام کی طاقت ہے اور دنیا میں سبھی انقلاب عوامی طاقت کی وجہ سے ہی آئے ہیں۔ ہم پاکستانی عوام جوش و جذبے اور اپنا حق لینے کی ہمت سے محروم ہیں۔ اس لئے ہمارے ملک کا پورا سیاسی نظام زوال کا پذیر۔ آج ہمارے ملک کو اسی طرز کے انقلاب کی ضرورت ہے جو فرانس، روس، چین، امریکہ یا ایران میں بپا کیا گیا تھا۔ جتنی ترقی مغرب میں ہوئی ہے اور کس طرح سے انھوں نے ظلم و جبر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف متحد ہو کر اپنے حقوق کی جنگ لڑی بلاشبہ وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے، اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو اپنی حالت بدلنے کی فکر نہ ہو۔ کوئی بھی ہمہ گیر انقلاب کسی معاشرے میں اس وقت تک برپا نہیں ہو سکتا جب تک کسی قوم کے باشندے اس کے لئے پوری طرح تیار نہ ہوں۔
خود غرضی، نفرت اور انتشار کے شکار ہمارے معاشرے کو پہلی ضرورت یکجہتی کی ہے۔ بلاشبہ اتفاق، اتحاد اور یکجہتی انسانوں کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم زندگی کے ہر مرحلے میں کرتے ہیں۔ اس سے ہی نئے سماجی نظام کی تشکیل ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اسی یکجہتی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ دوسروں کے مسائل سے لاپرواہ لوگوں میں غود غرضی اور بے حسی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ہمیں پہلے اپنے اندر تبدیلی لانا ہو گی۔ جب ہمارے اندر شخصی انقلاب آئے گا تو ہم یکجا ہو کر معاشرتی انقلاب کی طرف گامزن ہوں گے۔ کوئی بھی قوم جب باہم متحد ہو کر کسی نیک مقصد کا ارادہ کر لے تو ان کے سامنے ہر طاقت ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔
یہی وقت ہے کہ شخصی انقلاب پیدا کر کے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف کھڑے ہو کر معاشرتی انقلاب کیلئے ہم سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔