بلوچستانلائف سٹائل

بلوچستان میں معلومات تک رسائی مشکل کیوں؟

میروائس مشوانی

بلوچستان میں صحافیوں کو معلومات تک رسائی (آر ٹی آئی) کا قانون پاس ہونے کے باوجود معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔

دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان حکومت نے آر ٹی آئی بل کو اسمبلی سے پاس کرنے میں تاخیر کی۔ 1973 کے آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کے مطابق ہر شہری کو حکومتی معاملات کے بارے میں رسائی کا حق حاصل ہے جس کے لیے 18 ویں ترمیم کے تحت ہر صوبے سے کہا گیا کہ وہ معلومات تک رسائی دینے کے لیے قانون سازی کریں۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت نے نہ صرف قانون سازی کردی بلکہ قانون پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے بلوچستان اس معاملے میں آخری صوبہ ثابت ہوا۔

بلوچستان کی کابینہ نے گذشتہ سال بننے والے معلومات تک رسائی کے قانون کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی ہے۔ بلوچستان اسمبلی نے فروری 2021 میں پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات بشریٰ رند کے پیش کردہ رائٹ ٹو انفارمیشن بل کی منظوری دی تھی۔ 10 ماہ بعد 28 دسمبر 2022 کو وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو کی زیر صدارت اجلاس میں کابینہ نے قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی تھی۔

قواعد و ضوابط کی منظوری کے بعد چیف انفارمیشن کمشنر اور تین ممبران کا تقرر عمل میں لایا جانا تھا، جس کے بعد معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل در آمد شروع ہو جائے گا۔

تحقیقاتی صحافت سے وابستہ مطیع اللہ مطیع بتاتے ہیں کہ (آر ٹی آئی) بل پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کے باعث دیگر صوبوں کے نسبت بلوچستان میں صحافیوں کو معلومات تک رسائی میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وہ بتاتے ہے بل منظور ہونے کے بعد اس بات کی خوشی تھی کہ اب ان کو کسی بھی قسم کی معلومات کے حصول میں مشکلات نہیں ہوں گی لیکن ہوا اس کے بر عکس!۔ بل منظور ہونے کے باوجود بھی معلومات تک رسائی مشکل ہے۔

مطیع اللہ مطیع بتاتے ہیں کہ اب تک ان کی جانب سے معلومات تک رسائی کا حق کا استعمال کرتے ہوئے 20 مختلف سرکاری اداروں سے معلومات کے حصول کے لیے آر ٹی آئی فائل کئے لیکن اداروں میں انفارمیشن آفیسرز نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی معلومات نہ مل سکیں۔

معلومات تک رسائی کے قانون کے حصول کے لیے پانچ سال سے جدوجہد کرنے والے سماجی کارکن اور سماجی ادارے ایڈ (ایسوسی ایشن انٹیگریٹڈ ڈیویلپمنٹ بلوچستان) سے تعلق رکھنے والے بہرام لہڑی بتاتے ہے "کہ ان کا ادارہ پانچ سال سے( آر ٹی آئی) بل کو اسمبلی سے پاس کروانے میں جدوجہد کررہا تھا لیکن ارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کی عدم توجہی کی وجہ سے معاملہ طول پکڑتا گیا کیونکہ بیورو کریسی نہیں چاہتی کہ بل پاس ہو اور ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچے۔

سماجی تنظیموں کی کوششوں کی وجہ سے آخر کار صوبائی حکومت نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں تاخیر سے بل منظور تو کر لیا لیکن انفارمیشن کمیشن کا قیام ، انفارمیشن کمشنر ز اور انفارمیشن آفیسرز کا تقرر تاخیر کا شکار ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عوام میں اس بل کے حوالے سے شعور اور آگاہی کا فقدان ہے اور حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے جسکی وجہ سے عوام معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے آئینی حق سے محروم ہیں۔

آر ٹی آئی بل پر کام کرنے والے وکیل عظمت اللّٰہ اور وکیل عبدالجبار بادیزئی نے گزشتہ سال معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے بل پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے پر حکومت بلوچستان کے خلاف پٹیشن دائر کی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ تمام صوبوں میں بل پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا ہے جبکہ بلوچستان میں تاخیر کا شکار ہے۔ آئینی پٹیشن دائر ہونے کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ نے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے جواب طلب کرلیا ہے۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سکریٹری منظور بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان میں صحافی آج بھی اپنے زرائع سے بنیادی معلومات حاصل کرتے ہیں جبکہ سرکاری معلومات تک رسائی حاصل کرنے میں کافی دشواریاں درپیش ہوتی ہیں جس کی وجہ معلومات وقت پر عوام تک نہیں پہنچ سکتیں۔ آر ٹی آئی بل بلوچستان اسمبلی اور کابینہ سے منظور ہونے کے بعد کچھ اداروں کی جانب سے انفارمیشن آفیسران کا تقرر کیا گیا لیکن کمیشن کا قیام اب بھی تاخیر کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا اگر حکومت کی جانب سے انفارمیشن کمیشن بنانے میں تاخیر کیا گیا تو بلوچستان یونین آف جرنلسٹس راست اقدام کرے گی۔

انہوں نے مطالبہ کیا حکومت بلوچستان آر ٹی آئی بل کے حوالے سے صحافیوں کو خصوصی ٹریننگ بھی فراہم کرے تاکہ بل کی قوائد و ضوابط اور طریقہ کار سے آگاہی حاصل ہو سکے۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان فرح عظیم شاہ بتاتی ہے کہ "رولز آف بزنس منظوری کے لیے کابینہ میں پیش ہوۓ اور جائزہ کے بعد کابینہ کی سب کمیٹی کے حوالے کیے گئے جو اپنی رپورٹ کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کریگی رولز آف بزنس کی کابینہ سے منظوری کے بعد فوری طور پر کمشنر ،فوکل پرسنز اور دیگر آسامیوں پر تعیناتیاں کر کے انفارمیشن کمیشن کو فعال کر دیا جاۓ گا۔

رکن صوبائی اسمبلی میر ظہور بلیدی بتاتے ہیں کہ( آر ٹی آئی) قانون 2005 کے قانون کامتبادل ہے جس میں معلومات کی فراہمی کیلئے وقت کا تعین ،انفارمیشن کمیشن کی تشکیل و افسران کی تعیناتی کے علاوہ معلومات فراہم نہ کرنے پر سزا کا تعین کیاگیا ہے۔ یہ آئین پاکستان میں واضح ہے کہ ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ معلومات تک رسائی حاصل کرے۔ رکن صوبائی اسمبلی ظہور بلیدی جو کہ آر ٹی آئی ڈرافٹ بنانے میں پیش پیش تھے بتاتے ہیں کہ آر ٹی آئی بل دو دفعہ اسمبلی میں پیش کیا گیا لیکن کچھ خامیوں کی وجہ سے دوسری دفعہ منظور کیا گیا لیکن اب بھی خامیاں موجود ہیں جن میں ترمیم کی ضرورت ہے جیسا کہ کمیشن میں پہلے سے سرکاری عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین کی بجائے ریٹائرڈ ملازمین کی تعیناتی ہو یا نئی بھرتیاں کی جائیں تا کہ حکومتوں کی کرپشن کو فیور نہ مل سکے۔

انہوں نے کہا کہ پہلی دفعہ بل کے ڈرافٹ میں معلومات نہ فراہم کرنے والے آفیسرز کے لیے سزا تجویز نہیں کی گئی لیکن دوسری دفعہ اس میں سزائیں شامل کر دی گئی ہیں۔

میر ظہور بلیدی مزید بتاتے ہیں کہ ایک جمہوری معاشرے میں معلومات تک رسائی بنیادی حق ہے تاکہ کوئی شہری اپنے ٹیکسوں، حکومتی پالیسی اور دیگر معاملات تک رسائی حاصل کر سکے لیکن حکومتی عدم توجہی اور نااہلی کے باعث بلوچستان میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے قانون پر عمل درآمد تاخیر کا شکار ہے۔

سابق صدر پی ایف یو جے شہزادہ زوالفقار کا کہنا ہے کہ معلومات تک رسائی کا حق نہ صرف صحافیوں کو بلکہ تمام شہریوں کو حاصل ہونا چاہئیے۔ اکثر صحافی آر ٹی آئی کی مدد سے معلومات حاصل کرنے کی بجائے اپنے زرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں کیونکہ ار ٹی آئی کے زریعے معلومات فراہم نہیں کی جارہیں۔ اگر دیکھا جائے آر ٹی آئی بل منظور ہونے کے بعد شہریوں کے لیے مفاد عامہ کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کو آسان بنایا گیا ہے لیکن بل منظور ہونے کے باوجود بھی مختلف محکموں کی جانب سے قانون پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا جو ایک المیہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آر ٹی آئی قانون پر مکمل عملدرآمد سے نہ صرف صوبہ میں کرپشن ، اقربا پروری اور دیگر مالی بے ضابطگیوں میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے اس لیے آر ٹی آئی قانون پر مکمل عملدرآمد نہیں کروایا جارہا ہے۔

 

نوٹ: یہ سٹوری پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) فیلوشپ پروگرام کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button