خیبر پختونخواعوام کی آواز

فنانس ایکٹ 2025: کاروباری طبقے کا شدید ردعمل، 19 جولائی کو ملک گیر شٹر ڈاؤن کا اعلان

محمد سلمان

فنانس ایکٹ کی منظوری کے بعد ٹیکسز کی وصولی کا نیا طریقہ کار, نئے قوانین اور ایف بی ار کو دیئے گئے بے پناہ اختیارات اب اہستہ اہستہ سامنے آرہے ہیں۔ آخر ان ٹیکسز کی وصولی کا طریقہ کار نئے قوانین اور اختیارات ہیں کیا؟ جس کے باعث ملک بھر کی تاجر تنظیمیں اور چھوٹے بڑے دکاندار نہ صرف حکومت کے ان اقدامات کے خلاف یکجا ہو گئے ہیں بلکہ 19 جولائی کو ملک بھر میں ہونے والی شر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت کا بھی اعلان کیا ہے۔

سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر فضل مقیم نے اپنی دیگر کابینہ کے ہمراہ چیمبر ہال میں پریس کانفرنس کے دوران فنانس ایکٹ 2025 کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ قوانین نہ صرف خیبر پختوخوا بلکہ پورے پاکستان کی کاروباری برادری اس کے خلاف ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایکٹ محض ایک قانون نہیں بلکہ معیشت پر ایک بے رحمانہ وار ہے۔

انہوں نے کہا کہ فنانس ایکٹ میں شامل دفعات 37 اے اور 37 بی تباہ کن ہے، ایکٹ میں ایک اور تشویشناک شق سیکشن 21(S) شامل ہے۔ جس کے تحت دو لاکھ روپے یا اس سے زائد کی کسی بھی نقد ادائیگی کو ٹیکس کی چھوٹ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ چاہے وہ نقد رقم براہِ راست سپلائر کے اکاؤنٹ میں ہی کیوں نہ جمع کروائی گئی ہوں۔ اس سے سپلائر کو پچاس فیصد خرچے کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے تمام سیلز ٹیکس رجسٹرڈ اداروں پر ای-بلٹی اور ڈیجیٹل انوائسنگ سسٹمز کے لازمی نفاذ پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

چیمبر صدر نے سیکشن اے 37 کے تحت ایف بی آر کے افسران کو غیر معمولی اختیارات دینے پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی اسسٹنٹ کمشنر یا اس سے اوپر کا افسر محض صرف شک کی بنیاد پر انکوائری شروع کر سکتا ہے، ایک سادہ سی غلطی بھی جرم تصور کی جائے گی اور اس شک پر بزنس مین کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے

چیمبر سربراہ نے ایف بی آر پر مزید تنقید کی کہ وہ ایک ایسے ملک میں پیچیدہ ڈیجیٹل نظام نافذ کرنا چاہتا ہے جہاں کمپیوٹر اور عمومی تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔

مقیم خان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کی مخالفت کے باوجود فنانس بل کو جلدبازی میں منظور کر لیا گیا اور پہلے سے طے شدہ تجاویز کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے وزیر اعظم سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر سیکشنز 37 اے اور 37 بی کے تحت گرفتاری کے اختیارات، سیکشن 21(ایس) کے تحت 200,000 روپے سے زائد نقد لین دین پر عائد جرمانہ، ایس آر او 709 کے تحت ڈیجیٹل انوائسنگ کی لازمی شرط، اور سیکشن 40(C) کے تحت ای-بلٹیE-bilty) (کی لازمی شق واپس لیں۔

انہوں نے سیلز ٹیکس سیکشن 8B کے تحت کمشنر FBR کو tax adjustment input کو مکمل طور پر نامنظورکیا گیا ہے جو کہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ملک بھر کی بزنس کمیونٹی فوری اور مؤثر اصلاحات کا متفقہ طور پر مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر حکومت نے اصلاحاتی اقدامات نہ کئے تو احتجاج کی یہ تحریک شدت اختیار کر سکتی ہے جس کے ملکی معیشت اور ریاست کے کاروباری طبقے سے تعلقات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button