حمیرا اصغر کی موت، شوبز کی چکا چوند اور والدین کی ناراضگی — سکون کہاں ہے؟

حمیرا علیم
انسان کی فطرت میں محبت، احساسات اور خدمت کا جذبہ قدرتی طور پر موجود ہے۔ اس کا بہترین نمونہ والدین ہیں جو بنا کسی بدلے کی توقع کے اولاد کو بہترین زندگی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنے حقوق کے بعد والدین کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔ اور ان کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے۔ علاوہ یہ کہ وہ کوئی ایسا حکم دیں جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو،جس سے کسی کے حقوق کی پامالی ہو۔ والدین خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں انہیں اف تک کہنے سے روکا گیا ہے کجا کہ انکی بات نہ مانی جائے، ان سے بدزبانی کی جائے، ان پر ہاتھ اٹھایا جائے یا ان سے قطع تعلق کر لیا جائے۔ بہترین عمل جو رب کو پسند ہے وہ والدین سے حسن سلوک ہے اور ان سے بدسلوکی بدترین گناہ ہے۔
نفسیات بھی اس حکم ربی کو سپورٹ کرتی ہے ۔ والدین اور بچوں کے تعلقات کو انسانی شخصیت کی بنیاد قرار دیتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق: "جن بچوں نے بچپن یا جوانی میں اپنے والدین کی نافرمانی کی، وہ عمر کے کسی نہ کسی موڑ پر شدید جذباتی پچھتاوے کا شکار ہوتے ہیں۔”
مشہور سائیکالوجسٹ ڈاکٹرجارڈن پیٹرسن کہتے ہیں: "انسانی ضمیر ایک عجیب چیز ہے۔ اگر تم نے اپنے والدین کے ساتھ زیادتی کی ہو تو ضمیر تمہیں وقت کے ساتھ ملامت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ تمہاری ذہنی صحت پر اثر انداز ہونے لگتا ہے۔”
والدین کے نافرمان وقتی طور پر تو شاید خود کو تسلی دے لیتے ہوں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضطراب، احساس جرم، تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب کہ والدین کے فرمانبردار اور خدمت گزار پر اعتماد، پرسکون اور جذباتی طور پر متوازن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔
انسانی فطرت ہے کہ جب تک نعمت موجود ہو اس کا احساس اور اسکی قدر نہیں کرتا جب وہ چھن جائے تو اس کی اہیمت کا پتہ چلتا ہے یہی حال والدین کا ہے۔ ایک صاحب کا کہنا ہے: "جب میرے والد فوت ہوئے تو میں نے محسوس کیا کہ میں نے ان کے ساتھ زندگی میں وقت گزارنے کی بجائے دنیا کے پیچھے دوڑ لگائی۔ آج میرے پاس سب کچھ ہے، مگر وہ دعائیں نہیں جو مجھے دلی اطمینان دیتی تھیں۔”
ایسی ہزاروں مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جہاں اولاد والدین کی نافرمانی پر زندگی بھر پچھتاتی ہے۔
خصوصا جب کوئی شخص ایسا کام کرے جو حرام ہو اور والدین اس سے روکیں مگر وہ نہ رکے اور انہیں یہ بتائے کہ اب میں اپنے فیصلے خود کر سکتا ہوں، اچھے برے میں تمیز کر سکتا ہوں، آپ جدید دور کے تقاضوں سے واقف نہیں، میرے معاملات میں دخل مت دیا کریں۔
کیونکہ گناہ انسان کے دل پر بوجھ کی طرح ہوتا ہے۔مستقل گناہ کرتے رہنے سے بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چور، قاتل، شرابی، زانی زندگی میں کبھی نہ کبھی پچھتاووں کا شکار ضرور ہوتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں والدین اپنی تمام تر محبت اور شفقت کے باوجود کبھی کبھار اولاد سے اس قدر بدظن ہو جاتے ہیں کہ اس کی شکل بھی دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔ اس لیے اس سے ہر تعلق توڑ لیتے ہیں۔ بڑے بڑے کامیاب ایکٹرز، سنگرز وغیرہ جن کے پاس دولت، شہرت، لوگوں کا پیار سب ہوتا ہے مگر سکون نہیں۔
انہیں ہر خوشی ادھوری لگتی ہے کامیابی بے معنی لگتی ہےاور وہ اکثر خود سے شرمندہ رہتے ہیں۔ اپنے احساس جرم سے نکلنے کے لیے ڈرگز کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق یہ جذباتی بوجھ انسان کی خود اعتمادی کو کمزور کر دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ زندگی کے دوسرے تعلقات اور کاموں میں بھی ناکامی کا سامنا کرتا ہے۔
ہم اپنے اردگرد بھی روزمرہ زندگی میں ایسی مثالیں دیکھتے ہیں۔ یقین کیجئے اللہ جو ہمارا خالق ہے اور والدین جو ہمیں اس دنیا میں لا کر پروان چڑھانے کا سبب ہیں ان سے زیادہ ہمارا کوئی ہمدرد اور خیرخواہ نہیں۔ دونوں ہی اگر کسی کام سے روکیں اور ہمیں مصلحت سمجھ نہ بھی آ رہی ہو تو اس کام کو چھوڑ دینا چاہیئے۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہم ان دونوں کی ناراضگی مول لیتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ دنیا و آخرت کی رسوائی کی صورت میں نکلتا ہے۔
حال ہی میں ایک اداکارہ کی موت بھی ایسی ہی غلطی کا شاخسانہ لگ رہی ہے۔ کیونکہ ان کے والدین تک سے ان کا رابطہ پچھلے ستمبر سے منقطع تھا۔ ان کے ہمسایوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی سے ملتی جلتی نہیں تھیں اور اکثر ان کے گھر سے چیخنے کی آوازیں آتی تھیں۔ یقینا وہ اپنی تمام تر کامیابی کے باوجود تنہائی اور ڈپریشن کا شکار تھیں۔
اکثر خواتین ماڈلز اور ایکٹرز اپنے انٹرویوز میں جب یہ بات فخریہ بتاتی ہیں کہ میرے والدین میرے شوبز میں آنے کے سخت خلاف تھے مگر مجھے شوق تھا تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کوئی واضح حرام کام کے لیے اللہ اور والدین کی نافرمانی کر کے کیسے فخر کر سکتا ہے؟ انہی میں سے چند کامیاب اولڈ ایج خواتین ایکٹرز اب انٹرویوز میں اس بات کا ذکر کر کے زارو قطار روتی اور اس دکھ کا اظہار کرتی ہیں کہ کاش ہم نے والدین کی بات مان لی ہوتی۔
قرآن ہمیں بار بار یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ دنیاوی زندگی میں معاملات درست رکھیں کیونکہ جب موت آئے گی یا روز قیامت اپنی سب غلطیوں پر شدید پچھتاوا ہو گا لیکن اس وقت کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ کیونکہ مہلت صرف اس وقت تک دی گئی ہے جب تک سانس چلتی رہتی ہے۔ لہذا اگر آپ کے والدین زندہ ہیں تو ان کی قدر کریں۔ ان کی خدمت کو عبادت جانیں ان کی دعاؤں کا ذخیرہ اکٹھا کریں۔ اور اگر وہ اس دنیا سے جا چکے ہیں، تو ان کے لیے دعائیں، صدقات، اور نیک اعمال کے ذریعے اُن کی مغفرت کا سامان کریں۔
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ۔الاسراء 24
” اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔”