خیبر پختونخواعوام کی آواز

پشاور پبلک سکول انضمام کیس: ہائیکورٹ کا فیصلے پر نظرثانی کا حکم

پشاور ہائی کورٹ نے پشاور پبلک سکول اور کالج کے بورڈ آف گورنرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ 2017 میں لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول اور کالج کی شاخوں کے انضمام کے متنازع فیصلے کا ازسر نو جائزہ لیں اور متاثرہ اسٹاف اور درخواست گزاروں کی شکایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔

یہ حکم رِٹ پٹیشن نمبر 6022-P/2023 کی سماعت کے دوران جاری کیا گیا، جو پشاور پبلک سکول کی بوائز برانچ کے ویلفیئر ایسوسی ایشن اور دیگر عملے کی جانب سے ایڈووکیٹ نعمان محب کاکا خیل کے ذریعے دائر کی گئی تھی۔ درخواست گزاروں نے انضمام کے فیصلے کو غیر قانونی، مشاورت سے عاری اور بغیر کسی فیزیبلٹی اسٹڈی کے قرار دیتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ بوائز برانچ تعلیمی لحاظ سے نمایاں اور مالی طور پر خود کفیل رہی ہے، لیکن اس انضمام کے نتیجے میں لڑکیوں کی برانچ، جو مسلسل مالی خسارے میں رہی اور 2012 سے 2017 کے دوران یوٹیلیٹی بلز اور مرمت کے اخراجات میں اس برانچ کو شامل نہیں کیا اور اسکا بوجھ لڑکوں کی برانچ پر ڈال دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے تنخواہوں میں تاخیر، بچت کے فنڈز میں کمی اور سکول کے انفراسٹرکچر میں تنزلی ہوئی ہے۔

درخواست گزار وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ فیصلہ قانونی دائرہ اختیار سے تجاوز ہے، جسے نہ تو کسی قانونی اتھارٹی نے منظور کیا اور نہ ہی اس میں کورم موجود تھا۔ مزید برآں، متاثرہ فریقین کو سنے بغیر فیصلہ کیا گیا، جو قدرتی انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔

دوسری جانب، سرکاری فریق کی نمائندگی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید مختیار علی شاہ اور ایڈووکیٹ عبدالحمید خان نے کی، جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ انضمام ایک پالیسی فیصلہ تھا، جس پر عدالت کا وِٹ اختیار لاگو نہیں ہوتا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سکول بورڈ پہلے ہی اس معاملے کے ازسرِ نو جائزے کے لیے اجلاس طے کر چکا ہے۔

عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ، جس میں جسٹس وقار احمد اور جسٹس فضل سبحان شامل تھے، نے اس مرحلے پر انضمام کو کالعدم قرار دینے سے گریز کیا تاہم اسکول انتظامیہ کو حکم دیا کہ تمام شکایات بورڈ آف گورنرز کے سامنے پیش کی جائیں اور ادارے کے بہترین مفاد میں ان کا جامع جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button