بلاگزخیبر پختونخوا

کیا واقعی میں عورت ہی عورت کی دشمن ہے؟

رعناز

یہ جملہ اکثر زبانوں پر آتا ہے: "عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔” یہ محض ایک محاورہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے۔ جب ہم خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں، تو عمومی تصور یہ ہوتا ہے کہ مرد ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو بہت سے مواقع پر عورت کو اس کی راہ میں روکنے، اسے نیچا دکھانے، یا اس کے حق کو جھٹلانے میں دوسری عورت ہی پیش پیش ہوتی ہے۔

یہ رویہ صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ سماجی، خاندانی، پیشہ ورانہ اور ثقافتی ہر سطح پر نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں ایک عورت، جو خود بھی ظلم اور جبر سے گزر چکی ہوتی ہے، وہی دوسری عورت پر وہی رویہ اختیار کرتی ہے؟ ہم نے کھبی یہ نہیں سنا کہ بہو اور سسر کی لڑائی ہوئی ہے بلکہ ہم  ہمیشہ یہیں سنتے آرہے ہیں کہ ساس اور  بہو  کی لڑائی ہوئی ہے۔

ہمارا معاشرہ ایک پدرسری نظام پر استوار ہے، جہاں مرد کو حاکم اور عورت کو محکوم سمجھا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس نظام کو قائم رکھنے میں خود عورتیں بھی غیر محسوس طریقے سے کردار ادا کرتی ہیں۔ ماں، بہن، ساس، یا ٹیچر یہ سب جب لڑکیوں کو بچپن سے قربانی، خاموشی اور برداشت کا سبق دیتی ہیں، تو وہی سیکھے ہوئے رویے بڑی ہو کر دوسری عورتوں پر لاگو کرتی ہیں۔

خواتین کے درمیان ایک غیر صحتمند مقابلے کا رجحان بھی اس دشمنی کو جنم دیتا ہے۔ اگر ایک عورت کسی شعبے میں ترقی کرے، اچھا لباس پہنے، یا خودمختار ہو، تو دوسری عورتیں اسے برداشت نہیں کرتیں۔ وہ بجائے اس کے کہ اس کی تعریف کریں، اس کے کردار پر انگلی اٹھاتی ہیں یا اس کی کامیابی کو کسی مرد سے جوڑ کر بے معنی بنا دیتی ہیں۔ اس کی کردار کشی کرتے ہیں۔

ساس اور بہو کا رشتہ شاید عورت عورت کی دشمنی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ایک عورت جب ساس بنتی ہے تو اکثر وہ سب کچھ بھول جاتی ہے جو اس نے بہو ہوتے ہوئے جھیلا ہوتا ہے۔ وہی پابندیاں، وہی طعنے، اور وہی بدگمانیاں وہ نئی بہو پر بھی لاگو کرتی ہے۔ نتیجتاً ایک نئی عورت اسی تکلیف دہ چکر کا شکار بن جاتی ہے جس سے وہ خود گزر چکی ہوتی ہے۔افسوس اور نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔

عورت کو دبانے کے لیے سب سے آسان طریقہ کردار کشی ہے، اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اس عمل میں اکثر خود خواتین ہی شریک ہوتی ہیں۔ جب کوئی عورت کھل کر بولتی ہے، اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہے، یا "معاشرتی دائرے” سے باہر نکلتی ہے، تو سب سے پہلے وہ دوسری عورتوں کے طعنوں اور الزامات کا نشانہ بنتی ہے۔

ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سی خواتین کو اپنے بنیادی حقوق کا شعور ہی نہیں ہوتا۔ جب وہ خود اپنی آزادی یا خودمختاری کو اہمیت نہیں دیتیں تو وہ کسی اور عورت کو اس کا استعمال کرتے نہیں دیکھ سکتیں۔ انہیں یہ لگتا ہے کہ اگر وہ روایات اور پابندیوں میں رہیں، تو باقیوں کو بھی رہنا چاہیے۔

ٹی وی ڈرامے، فلمیں، اور سوشل میڈیا بھی اس سوچ کو تقویت دیتے ہیں کہ عورت کا سب سے بڑا دشمن عورت ہی ہے۔ آئے روز ایسے کردار دکھائے جاتے ہیں، جہاں عورت دوسری عورت کے خلاف سازش کرتی ہے، گھر توڑتی ہے، یا شوہر کو بہکاتی ہے۔ یہ تاثر خواتین کے درمیان اعتماد کو کمزور کرتا ہے اور ان میں فاصلہ پیدا کرتا ہے۔ اور انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا تی ہے۔

اگر ہم ایک بہتر معاشرہ چاہتے ہیں، تو ضروری ہے کہ عورتیں ایک دوسرے کو دشمن نہیں بلکہ ساتھی اور سہارا سمجھیں۔ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹیں ۔ماں اپنی بیٹی کو بیٹے کے برابر حقوق دے۔ ساس بہو کے لیے ماں جیسا دل رکھے۔خواتین ایک دوسرے کی کامیابی پر خوشی منائیں، تنقید نہ کریں۔ کردار کشی نہ کریں۔تعلیم، شعور اور ہمدردی کو فروغ دیا جائے۔فیمینزم یا عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی خواتین کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کا ساتھ دیا جائے۔ایک دوسرے کی مدد کی جائے۔

عورت اگر عورت کی محافظ بن جائے تو نہ صرف عورت مضبوط ہو گی بلکہ پورا معاشرہ مضبوط ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حقوق کی لڑائی کسی مرد کے خلاف نہیں بلکہ ناانصافی کے خلاف ہے، اور اگر عورت ہی عورت کا ساتھ نہیں دے گی تو بہت سی آوازیں دب کر رہ جائیں گی۔لہٰذا، وقت آ گیا ہے کہ اس سوچ کو بدلا جائے کہ "عورت عورت کی دشمن ہے” اور اسے یوں بدلا جائے کہ عورت ہی عورت کی طاقت ہے۔

Show More

Raynaz

رعناز ایک ڈیجیٹل رپورٹر اور بلاگر ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button