بھارت میں مساجد غیر محفوظ، لکی مروت میں ہندو استاد کی نشانی آج بھی زندہ!

غلام اکبر مروت
جہاں ایک طرف بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں غیر محفوظ ہو رہی ہیں اور مسلم حکمرانوں کی نشانیوں کو مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، وہی خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت کے ایک چھوٹے سے محلے "خوائیدادخیل” میں ایک ہندو ماسٹر کی یادگار آج بھی محفوظ ہے۔ یہ یادگار نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ تاریخ کا ایسا ورق ہے جو ماضی کے پرامن باہمی تعلقات کا گواہ بھی ہے۔
یہاں واقع گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 1 خوائیدادخیل کی دو منزلہ عمارت پر آج بھی ایک تختی نصب ہے، جس پر اردو میں درج ہے:
“اوم”
یہ کمرہ ماسٹر ہونداس
نے اپنی دھرم پتنی کی یادگار
میں بنوایا۔
اگرچہ تختی پر سن درج نہیں، لیکن مقامی لوگ اور اساتذہ کا ماننا ہے کہ یہ کمرہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے تعمیر کیا گیا۔ ہندو استاد ہونداس نے یہ کمرہ اپنی مرحومہ بیوی کی یاد میں تعمیر کروایا تھا، اور آج ایک صدی گزرنے کے بعد بھی یہ کمرہ اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔
ایک صدی پرانا سکول، نایاب ریکارڈ
اس تاریخی سکول کا باقاعدہ اجراء یکم ستمبر 1914 کو ہوا، جس میں ابتدائی طور پر 19 طلبہ داخل تھے۔ افسوسناک طور پر سکول کا ابتدائی ریکارڈ دیمک کی نذر ہو چکا ہے، تاہم دستیاب دستاویزات یہی تاریخ ظاہر کرتی ہیں۔
موجودہ ہیڈماسٹر فدا احمد زکوڑی کے مطابق سکول میں اس وقت سات کمرے، چھ کلاسیں اور پانچ اساتذہ ہیں، جبکہ دو سو کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی تعاون سے طلبہ کی تعداد ڈھائی سے تین سو تک پہنچانے کا ارادہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماسٹر ہونداس کی تعمیر کردہ یادگار کو خاص اہمیت دی گئی ہے اور نچلی منزل میں ہیڈماسٹر کا دفتر قائم کیا گیا ہے تاکہ اس کمرے کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔
تقسیم کا دور اور عبدالمالک خان کی یادیں
لکی مروت کے ایک بزرگ شہری عبدالمالک خان کی یادداشتیں اس علاقے کی مشترکہ تہذیب کا آئینہ ہیں۔ انہیں اپنی پیدائش کی تاریخ تو یاد نہیں، لیکن تقسیم کے دن آج بھی ان کی یادوں میں تازہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب ہندو خاندان لکی مروت چھوڑ رہے تھے، تو انہیں پولیس کی نگرانی میں ریلوے جنکشن لایا جاتا تھا۔
ان کے بقول ہندو خاندان ضروری سامان کے علاوہ باقی سب کچھ پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ایک نامعلوم شخص نے ان کے سر پر روٹی پکانے والا توا رکھا اور کہا کہ لے جاؤ، تمہارا ہوا۔ وہ ایک پیتل کا گھڑا بھی ساتھ لے گئے تھے جسے بعد میں خوف کے باعث گھر سے باہر ریت میں دفن کر دیا، لیکن آج تک نہ وہ جگہ یاد ہے نہ گھڑا ملا۔
عبدالمالک خان کا بچپن ہندو اور سکھ بچوں کے ساتھ گزرا۔ وہ نہ صرف ان کے ساتھ پڑھتے بلکہ کھیلتے اور کبھی کبھار لڑتے بھی تھے۔ ان کے بقول: "جب کسی ہندو یا سکھ بچے سے لڑائی ہوتی تو ہم پہلے گروپ بناتے کیونکہ سکول میں ہندو بچے زیادہ اور مسلمان بچے کم تھے۔”
مشترکہ ورثے کا احترام
عبدالمالک خان کے والد خود استاد تھے، جس کے باعث سکول میں ان کی عزت تھی۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ چوتھی جماعت میں مانیٹر تھے اور اسی کلاس میں ہندو اور سکھ بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ ان یادوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح اس دور میں مختلف مذاہب کے بچے ایک ساتھ پڑھتے، کھیلتے اور بڑھتے تھے۔
لکی مروت کا یہ سکول اور ہندو ماسٹر ہونداس کی یادگار ایک خاموش پیغام دیتی ہے، یہ کہ ماضی کے لوگ مذہب، نسل یا زبان سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ یہ یادگار ثابت کرتی ہے کہ تاریخ کو مٹانا ممکن نہیں، اور جو قومیں اپنی جڑوں کو یاد رکھتی ہیں، وہی مستقبل میں بھی نکھرتی ہیں۔
یہ کمرہ صرف اینٹوں اور گارے کا ڈھانچہ نہیں، بلکہ امن، برداشت، اور محبت کی روشن مثال ہے، ایک ایسی مثال، جو آج کے شور و شرابے میں مزید توجہ اور احترام کی مستحق ہے۔