لنڈی کوتل: بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مقامی نوجوانوں کی کاوشیں

محراب شاہ آفریدی
لنڈی کوتل میں اکثر طوفانی بارشیں ہو تو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے یہاں کی مقامی آبادی سڑکوں، ندی نالیوں اور مکانات کا نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ مگر پانی نقصان کے علاوہ یہاں کے کسی بھی کام نہیں آتا۔ اسی سلسلے میں لنڈی کوتل میں بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مقامی نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے تالاب اور بارانی ڈیموں کی تعمیر شروع کر دی ہے۔
لنڈی کوتل کے یہ نوجوان بیشتر مقامات کا دورہ کرتے ہیں اور سائٹ سلیکشن کے بعد ان پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ مقامی نوجوان الطاف نے بتایا کہ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے لنڈی کوتل بالخصوص اور پورے خیبر بالعموم کی پانی کی سطح دن بدن گرتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے لنڈی کوتل میں بیشتر پانی کے ٹیوب ویل خشک ہو چکے ہیں اور کثیر پیمانے پر یہاں کی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔
بیشتر آبادی اپنی پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے میلوں دور سروں پر پانی لانے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پانی کی سطح گرنے سے جنگلات میں بھی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پہاڑوں کی ہریالی ختم ہونے کے قریب ہے جبکہ یہاں کا قدرتی ماحول بہت متاثر ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح جنگلات میں کمی کے باعث یہاں گرمی زور پکڑنے لگی ہے اور یوں ایسی صورتحال انتہائی خطرناک ہے، جس کی وجہ سے یہاں کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے۔
مقامی نوجوانوں نے یہ خیال کیا ہے کہ حکومت اگر یہ کام نہیں کر رہی تو کیوں نہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت محدود پیمانے پر واٹر کنزرویشن کے لیے کام کریں۔ اسی طرح انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاکھوں روپے کی خرچ پر لنڈی کوتل میں پانچ سے زائد مقامات پر بارانی ڈیم یعنی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے پشتے بنائے ہیں۔
مقامی نوجوان الطاف نے بتایا کہ اب تک شنواری، چارواز گئی، بھاگو شیخ مل، نیکی خیل، ملاگوری کے مقام پر بارانی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے انہوں نے چھوٹے ڈیم بنائے ہیں۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے وہاں کی مقامی آبادی کو بہت فائدے ملے ہیں۔ مقامی نوجوان نے بتایا کہ وہ اپنی ذاتی خرچ سے یہ کام کر رہے ہیں اور اب تک کسی سرکاری ادارے یا تنظیم کی طرف سے کوئی مدد انہیں حاصل نہیں ہے۔
الطاف شنواری نے بتایا کہ ہمارا بیشتر کام وہاں کے مقامی پہاڑوں کے دامنوں میں ہوتی ہے، اس لیے ان پر ایک طرف کافی خرچ آتا ہے تو دوسری جانب وہاں مٹیریل کی رسائی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ مقامی نوجوان الطاف کہتے ہیں کہ ہماری ٹیم کی انتھک کوشش ہوتی ہے کہ جہاں بھی ضرورت ہو وہاں ہم پہنچ جائیں اور وہ کام کر سکیں لیکن مشکلات زیادہ ہیں اور ان کے وسائل کم ہیں۔
الطاف شنواری کہتے ہیں کہ ان کے ہمراہ ان کے دوستوں کے حوصلے پست نہیں ہیں اور وہ آخری دم تک موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ الطاف نامی مقامی نوجوان بتاتے ہیں کہ ان کی یہ کاوش زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو دوبارہ اجاگر کرنے اور اوپر آنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ مستقبل میں بڑے بڑے تالاب بنانے کا بھی پلان رکھتے ہیں اور پہاڑوں کے دامنوں میں بھی وہ شجرکاری اور ڈیم بنانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ الطاف شنواری نے کہا کہ اسی سلسلے میں تالاب یا ڈیموں سے زیادہ ضرورت عوامی آگاہی کی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں جان سکے اور پانی کے ضیاع کو روکے، کیونکہ پانی کا ضیاع موسمیاتی تبدیلیوں کا بڑا عنصر ہے۔
لنڈی کوتل میں عوام ان کی کاوشوں پر خوش اور مشکور دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے ڈیموں کے حوالے سے ویڈیوز اور تصاویر نے کافی شہرت حاصل کی ہے۔ الطاف شنواری بتاتے ہیں کہ لنڈی کوتل میں بہت سارے مقامات ہیں جن پر چھوٹے پیمانے پر بارانی ڈیم بآسانی بنائے جا سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک طرف پانی کی سطح اوپر آئے گی، دوسری طرف جنگلات میں بھی اضافہ اور گرمی کا زور ٹوٹے گا۔
ساتھ ہی متبادل کے طور پر سیلاب کا خطرہ بھی کم ہوگا کیونکہ پہاڑوں کے دامنوں میں تالاب نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مون سون کی بارشوں میں بڑے سیلابی ریلے نکلتے ہیں، جس کی وجہ سے پاک افغان شاہراہ گھنٹوں بند پڑی ہوتی ہے اور یوں ملکی خزانے کا بھی یومیہ اربوں روپے نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے اگر پہاڑوں کے دامنوں میں محدود پیمانے پر بارانی ڈیم بنائے جائیں تو ایک طرف پانی ذخیرہ ہوگا جبکہ دوسری جانب سیلابی خطرہ ختم ہونے سے سڑکوں، گاڑیوں اور مقامی آبادی کو محفوظ بنایا جائے گا۔
مقامی نوجوانوں کی کاوشوں پر سوشل میڈیا میں دھوم مچی ہے اور ان کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے جڑے ادارے اگر ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں تو یہ خیبر کو "گرین خیبر” میں تبدیل کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔