عوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

کیا سوشل میڈیا خواتین کی پرائیویسی کا دشمن بن چکا ہے؟ ٹک ٹاک لیکس کی حیران کن حقیقت!!!

ناہید جہانگیر

ماہ نور، جو پہلے ٹک ٹاک استعمال کرتی تھیں، پچھلے دو سال سے اس پلیٹ فارم کو چھوڑ چکی ہیں۔ ان کے مطابق، وہ غلط کمنٹس اور انباکس پیغامات سے تنگ آ چکی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو لڑکی ٹک ٹاک پر ہے، اس کا کردار بھی خراب ہوگا اور وہ مردوں سے آسانی سے دوستی کرتی ہوگی۔

لیکن ماہ نور کا کہنا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خواتین کو یا تو غلط کمنٹس سے ہراساں کیا جاتا ہے یا انباکس میں چیٹ آئی ڈی، فون نمبر مانگے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ماہ نور نے پلیٹ فارم کو خیرباد کہہ دیا۔ حالانکہ وہ خود ویڈیوز، تصاویر اور معلومات شیئر کرتی تھیں، ان کے فالوورز بھی تھے، لیکن اب وہ یہ سب نہیں کرتیں۔

ٹک ٹاک لائیو میں مرد اور خواتین دونوں ایک ساتھ آتے ہیں۔ جس میں زیادہ تر گالی گلوچ ہی ایک دوسرے کو دی جاتی ہے۔ لیکن نقصان خاتون ہی اٹھاتی ہے۔ بدلہ لینے ،سخت تنقید یا ان کی کوئی ویڈیو لیک کی صورت میں نقصان سامنے آتا ہے۔خاص کر وہ خواتین جن کو بہت کم وقت میں شہرت مل جاتی ہیں لیکن اس شہرت یا مقبولیت کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا کم پڑھی لکھی یا ان پڑھ خواتین کو نہیں آتا اوع یہ شہرت یا مقبولیت مس یوز ہو جاتی ہے۔

پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے مطابق، ملک میں ماہانہ دو کروڑ افراد ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔ جہاں کچھ نے پیسہ اور شہرت کمائی، وہاں کچھ کو نقصان بھی ہوا۔ ٹک ٹاک لائیو پر مرد و خواتین ایک ساتھ آتے ہیں، لیکن نقصان اکثر خواتین کو اٹھانا پڑتا ہے، خاص طور پر تب جب ان کی ویڈیوز یا تصاویر لیک ہو جاتی ہیں۔

ماہ نور کہتی ہیں کہ شہرت کو صحیح استعمال کرنا سب کے بس کی بات نہیں، خاص طور پر کم پڑھی لکھی خواتین کے لیے۔ وہ کہتی ہیں کہ گفٹنگ کے پیچھے اکثر غلط نیت ہوتی ہے۔ جب کسی سینڈر کی طرف سے گفٹ آتا ہے، تو اس کے بدلے میں فون نمبر، سنیپ چیٹ آئی ڈی، تصاویر یا ملاقات کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ اگر تعلق ختم ہو جائے یا لڑکی مطالبات پورے نہ کرے، تو تصاویر اور ویڈیوز لیک ہو جاتی ہیں۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ لڑکیاں ہزاروں روپے صرف اس امید پر کماتی ہیں کہ گفٹ دینے والا کچھ نہ مانگے، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ کئی لڑکیاں سینڈرز سے ملتی بھی ہیں، تعلقات بھی بناتی ہیں اور بعد میں نقصان اٹھاتی ہیں۔

صرف خواتین کو ہی ٹارگٹ کیوں کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ماہ نور نے کہا کہ وہ ٹک ٹاک پیلٹ فارم کو ایک اچھا پلیٹ فارم تصور کرتی ہیں, اگر اسکو مثبت استعمال کیا جائے۔ لیکن بعض منفی سوچ رکھنے والوں کی وجہ سے خطرناک بھی ہے اور خاص کر ان خواتین کے لیے جو کم پڑھی لکھی ہیں ۔

ماہ نور ایسی بہت سی خواتین کو بھی جانتی ہے جو کہ وہ اپنے سینڈر سے ملاقات بھی کرتی ہے، لنچ ڈنر بھی کرتی ہیں، ان سے ملتی بھی ہیں اور پھر وہی سینڈر ڈیمانڈز بھی کرتے ہیں۔ اگر لڑکی وہ ڈیمانڈ مانتی ہے تو ٹھیک ہے، اگر نہیں تو پھر ان کو سخت تنقید یا دھمکی بھی ملتی ہیں۔ اگر بعض خواتین غلطی سے کوئی اپنی پکچر یا کوئی ویڈیو کسی سے پرسنل میں شیئر کر دیتی ہیں تو پھر مرد کی جانب سے ڈیمانڈ میں مزید غلط ڈیمانڈ سامنے آتی ہے اور اگر ان کے درمیان بریک اپ ہو جاتا ہے یا پھر لڑکی مزید وہ ڈیمانڈز افورڈ نہیں کر سکتی تو پھر وہی چیزیں وہی ویڈیوز یا پکچر جو ہے وہ مرد لیک کر دیتے ہیں۔

دوسری طرف، محمد اعزاز عرف ڈمپل خانی، جو مردان سے تعلق رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ٹک ٹاک نے ان کا کیریئر تباہ کر دیا۔ جب وہ جماعت نہم میں تھے، تو کزن کے موبائل سے ویڈیوز بناتے تھے۔ بعد میں ذاتی موبائل لیا، ایپ انسٹال کی، اور باقاعدگی سے ویڈیوز بنانا شروع کیں۔

انہوں نے ایف ایس سی کے بعد بی ایس نرسنگ میں داخلہ لیا، لیکن چوتھے سمسٹر میں ناکامی کے بعد کالج چھوڑنا پڑا۔ وہ افسوس کرتے ہیں کہ نہ وہ اچھے ٹک ٹاکر بن سکے، نہ والدین کی خواہش پوری کر سکے۔

ڈمپل خانی مزید بتاتے ہیں کہ کوئی ٹک ٹاک شوق کی وجہ سے استعمال کرتا ہے تو کوئی پیسوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ شوق کا مطلب بعض لوگ مشہور ہونا چاہتے ہیں، کیونکہ بعض ٹک ٹاکر آج کل دنیا بھر میں کافی مقبول ہوگئے ہیں ،جیسے کوئی فلم سٹارز ہو یا بعض کو تو ڈراموں میں کافی اچھے کردار ٹک ٹاک کی مقبولیت کی وجہ سے ملے ہیں۔

جہاں تک پیسوں کی بات ہے تو بہت کم لوگ بطور آمدن بھی اسکا استعمال کرتے ہیں، ٹک ٹاک پر براہ راست آکر گیمز کھیلنا یا گفٹنگ کرنے سے آمدنی بھی ہوتی ہیں لیکن آمدن بہت کم لوگوں کو ہوتی ہیں کیونکہ  اس کے لیے سم کارڈ بیرونی ملک کا ہونا چاہیے اسکے ساتھ ساتھ کچھ رولز ریگولیشن کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جس کی زیادہ سمجھ بوجھ لوگوں کو نہیں آتی اور خاص کرخیبر پختونخوا میں کم پڑھے لکھے لوگوں کو کم ہی سمجھ آتی ہے۔ جس کی وجہ سے ٹک ٹاکر کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ اٹھانا پڑتا ہے۔

Show More

Naheed Jahangir

Naheed jehangir is a Freelance Journalist from Peshawar .also she is the First kp facebook live news anchor of pashto local language She has done Mphil in Media studies

متعلقہ پوسٹس

Back to top button